اسلام آباد: وزیر خارجہ خواجہ محمد آصف نے واضح کیا ہے کہ انسدادِ منی لانڈرنگ کے نگراں ادارے کی جانب سے پاکستان کا نام دہشت گردوں کے معاون ممالک کی ‘فہرست’ میں ڈالے جانے کا معاملہ تین ماہ تک کے لیے مؤخر ہوگیا ہے۔

واضح رہے کہ امریکا نے فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) کے ارکان ممالک پر دباؤ ڈالا تھا کہ پاکستان کو دہشت گردوں کے معاون ممالک کی فہرست میں شامل کیا جائے تاہم وزیر خارجہ خواجہ آصف نے گزشتہ روز سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر اپنے ٹوئٹ میں بتایا تھا کہ عالمی نگراں ادارے نے پاکستان کو منی لانڈرنگ قوانین میں سختی اور انسداد دہشت گردی کے خاتمے کے لیے موثر حکمت عملی اپنانے کے لیے 3 ماہ کی مہلت دی ہے۔

یہ پڑھیں: پاکستان دہشت گردی سے متاثرہ تیسرا بڑا ملک

فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) ایک عالمی ادارہ ہے جو جی سیون (G-7) ممالک کے ایما پر بنایا گیا کہ جو منی لانڈرنگ اور دہشت گردوں کی مالی امداد کی نگرانی کرتا ہے تاہم پاکستان اس ادارے کا براہِ راست رکن نہیں ہے۔

مذکورہ غیر سرکاری ادارہ کسی ملک پر پابندی عائد کرنے کے اختیارات نہیں رکھتا لیکن گرے اور بلیک کیٹیگری واضع کرتا ہے۔

انسداد منی لانڈرنگ اور دہشت گردی کے خلاف قابل قدر اقدامات کی صورت میں اس ملک کو گرے کیٹیگری میں شامل کیا جاتا ہے جبکہ کسی ملک کی جانب سے منی لانڈرنگ کے خلاف کوئی اقدامات نہیں اٹھائے جاتے تو اُسے بلیک کیٹیگری میں ڈال دیا جاتا ہے جس کے بعد بین الاقوامی سطح پر زرِمبادلہ کی نقل و حرکت اور ترسیل میں غیر معمولی مشکلات کا سامنا ہوتا ہے۔

غر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق خواجہ آصف نے گزشتہ روز ٹوئٹ کیا تھا کہ امریکی قرارداد کے خلاف پاکستان کی ‘محنت رنگ لے آئی’ اور کہا کہ ‘پاکستان کے معاملے پر کوئی اتفاق رائے سامنے نہیں آیا’۔

یہ بھی پڑھیں: دہشت گردی کے خلاف پاکستان کے ساتھ تعاون کریں گے، روسی وزیرخارجہ

انہوں نے مزید کہا کہ اجلاس میں ‘تین مہینوں’ کی مہلت کی تجویز پیش کی گئی اور ایف اے ٹی ایف کے ذیلی ادارے ایشیا پیسفک گروپ سے ‘جون میں دوسری رپورٹ’ کے لیے انتظار کا کہا گیا۔

خواجہ آصف نے مزید لکھا کہ ‘ان کے مشکور ہیں جنہوں نے ہماری مدد کی’۔

خیال رہے کہ گزشتہ دنوں واشنگٹن کی جانب سے پاکستان کو دہشت گردوں سے ‘تعاون’ کی واچ لسٹ میں شامل کرنے کی تجویز کو امریکی تھنک ٹینک ووڈ روولسن نے یکسر مسترد کردی تھی۔

تھنک ٹینک میں شامل تین ماہرین نے واضح کہا تھا کہ ‘پاکستان کو دہشت گردوں کے معان ممالک کی فہرست میں شامل کرنے سے امریکا کی پریشانیوں میں تنزلی نہیں آئے گی، ایسا کرنے سے امریکا اسلام آباد کو اپنی پالیسی میں تبدیلی کے لیے مجبور نہیں کر سکتا اور نہ ہی امریکا افغانستان میں اپنے ممکنہ مقاصد کے حصول میں کامیاب ہو سکے گا’۔

مزید پڑھیں: ‘پاکستان کو دہشت گردوں کے معاون ممالک کی واچ لسٹ میں ڈالنے سے کچھ حاصل نہیں ہوگا‘

دوسری جانب رواں ماہ جرمنی کے شہر میونخ میں سیکیورٹی کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے چیف آف آرمی اسٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ نے پاکستان میں دہشت گردی اور جہاد کے حوالے سے مغرب میں پائی جانے والی غلط فہمیوں پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا تھا کہ پاکستان 40 برس قبل جو بویا گیا تھا اس کو کاٹ رہا ہے اور سرحد کے ساتھ افغانستان میں دہشت گردوں کے محفوظ ٹھکانے ہیں جبکہ پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف بے پناہ قربانیاں دی ہیں۔

آرمی چیف کا کہنا تھا کہ جہاد کا حکم دینے کا اختیار صرف ریاست کو ہے اور خود پر قابو رکھنا بہترین جہاد ہے جبکہ تمام مکتبہ فکر کے علماء نے جہاد کے نام پر ہونے والے نام نہاد جہاد کے خلاف فتویٰ دیا ہے۔

امریکا کے اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کی ترجمان ہیتھر نوریٹ نے ہفتہ وار پریس بریفنگ میں پوچھا گیا کہ پاکستان میں انسداد دہشت گردی کے نئے قانون سے متلعق کیا رائے ہے؟ جس پر انہوں نے واضح کیا کہ ‘انہیں مذکورہ قانون کے بارے میں معلومات نہیں ہے’۔

خیال رہے کہ صدر ممنون حسین کی جانب سے انسدادِ دہشت کردی ایکٹ 1997 میں ترمیم کرتے ہوئے آرڈیننس جاری کردیا گیا جس کے مطابق اب اقوامِ متحدہ کی سیکیورٹی کونسل (یو این ایس سی) کی فہرست میں شامل کالعدم تنظیموں، دہشت گردوں اور مطلوب افراد کے خلاف پاکستان میں بھی کارروائی کی جاسکے گی۔


یہ خبر 21 فروری 2018 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں