فوری طور پر تو یہ فیصلہ صرف ایک فرد کے سیاسی مستقبل پر اثرات مرتب کرے گا، مگر اس فیصلے میں جموری مرحلے کو زبردست زک پہنچانے کی پوری صلاحیت موجود ہے۔

ملک کی اعلیٰ ترین عدالت کو اعلیٰ ترین عزت بھی دینی چاہیے۔ عدالت کے بغیر قانون کی حکمرانی ناممکن ہے۔ مگر نہایت افسوس کے ساتھ یہ کہنا پڑ رہا ہے کہ سپریم کورٹ آف پاکستان کے فیصلوں کو قانون کی حکمرانی اور آئینی جمہوریت کی بالادستی کی بنیاد بننا چاہیے، نہ کہ قومی بے یقینی میں اضافے کی۔

نواز شریف، جنہیں گزشتہ سال پہلے ہی وزارتِ عظمیٰ سے ہٹا دیا گیا تھا، اب انہیں مسلم لیگ (ن) کی صدارت سے بھی ہٹا دیا گیا ہے۔ اپنے ایک مختصر حکم نامے میں سپریم کورٹ کے بینچ نے چیف جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں فیصلہ دیا ہے کہ چوں کہ نواز شریف پارلیمان سے نااہل قرار دیے جا چکے ہیں، اور چوں کہ کسی بھی پارٹی کے صدر کا پارلیمان کی تشکیل اور کارکردگی پر براہِ راست اثر ہوتا ہے، لہٰذا نواز شریف مسلم لیگ (ن) کے صدر نہیں رہ سکتے۔

یہ فیصلہ غیر معمولی ہے اور بظاہر آئین کی شق 17 میں دیے گئے بنیادی حق سے متصادم ہے، جو کہ اراکینِ پارلیمنٹ کی اہلیت یا نااہلی کے معیار سے بالاتر ہو کر سب شہریوں کو کسی بھی سیاسی جماعت سے وابستگی کا حق دیتا ہے۔

شاید غیر معینہ تاریخ پر آنے والے تفصیلی فیصلے میں اس کی ایسی وجوہات موجود ہوں جس کی آزاد تجزیہ نگار اور ماہرینِ قانون حمایت کرسکیں، مگر تفصیلی فیصلوں میں تاخیر ایک غلط روایت ہے جس کی حوصلہ شکنی ضروری ہے کیوں کہ اس سے آئینی اور قانونی بے یقینی میں اضافہ ہوتا ہے۔

مگر یہ واضح ہے کہ جمہوری روایات سے دور ہٹنے کا سفر پوری شدت سے جاری ہے۔ ایک رکنِ پارلیمنٹ کے پاس قانون سازی کی طاقت ہوتی ہے اور وہ وفاقی حکومت کا رکن بھی بن سکتا ہے۔ یہ وہ طاقت اور اختیار ہے جس کے حاملین کی سخت ترین پڑتال ہونی چاہیے۔

ایک سیاسی جماعت کے پاس ایسی کوئی طاقت اور اختیار نہیں ہوتا اور جمہوری روایات کو معاشرے کے تمام ارکان کی سیاسی مرحلے کا حصہ بننے کے لیے حوصلہ افزائی کرنی چاہیے، نہ کہ حوصلہ شکنی۔

یقینی ہے کہ قانون سے اوپر کوئی بھی نہیں، پھر چاہے وہ شخص ملک کی سب سے بڑی سیاسی جماعت کا سربراہ ہو یا پھر 3 مرتبہ وزیرِ اعظم رہ چکا ہو۔

مگر ذمہ داری دوسری جانب بھی عائد ہوتی ہے، یعنی عدالتوں کی جانب سے قانون اور اس کی تشریح کو ایک شخص کے گرد گھومنے کے بجائے عدل کو فروغ دینا چاہیے اور شفاف ہونا چاہیے۔

گزشتہ جولائی میں نااہل قرار دیے جانے سے لے کر اب تک نواز شریف کے عدلیہ کے خلاف بیانات ناخوشگوار اور پریشان کن ہیں۔ مسلم لیگ (ن) کی جانب انتخابی اصلاحات کے قوانین میں صرف ایک شخص کو پارٹی صدارت پر لانے کے لیے ترمیم لانا ایک غیر ضروری اور نامعقول حرکت تھی۔

مگر عدلیہ کی ذمہ داری قانون کی تشریح کرنا ہے، قانون بنانا نہیں۔ سپریم کورٹ کی جانب سے قانون کا ماضی پر اطلاق بھی کافی پریشان کن ہے جس کی وجہ سے دوبارہ پارٹی صدر بننے کے بعد نواز شریف کے تمام فیصلے کالعدم ہوگئے ہیں۔

عدلیہ کو سیاست میں عدالتی مداخلت سے خود کو روکنا ہوگا۔

یہ اداریہ ڈان اخبار میں 23 فروری 2018 کو شائع ہوا۔

انگلش میں پڑھیں۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں