لاہور میں وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کی عمارت سے چھلانگ لگانے والے مبینہ طور پر توہینِ مذہب کے الزام میں گرفتار ملزم نے ایف آئی اے پر تشدد کا الزام عائد کر دیا۔

ایف آئی اے کے سائبر کرائم ونگ نے لاہور کے علاقے شاہدرہ کے رہائشی ساجد مسیح کو لاہور کے ریگل چوک میں موجود اپنے دفتر میں مبینہ طور پر فیس بک پر توہینِ مذہب کے حوالے سے شائع مواد کی تحقیقات کے سلسلے میں طلب کر رکھا تھا۔

ساجد مسیح اپنا بیان ریکارڈ کروانے کے لیے ایف آئی اے کے دفتر پہنچے جہاں انھوں نے مبینہ طور پر عمارت کی چوتھی منزل سے چھلانگ لگا دی۔

ساجد مسیح کو فوری طور پر لاہور کے گنگا رام ہسپتال منتقل کیا گیا بعد ازاں انھیں لاہور کے جنرل ہسپتال اور پھر مایو ہسپتال منتقل کر دیا گیا۔

دوسری جانب لاہور کی تھانہ سول لائنز پولیس نے ساجد مسیح کے خلاف خود کشی کی کوشش کا مقدمہ درج کر لیا۔

مزید پڑھیں: ایف آئی اے سائبر کرائم ونگ وسائل کی کمی کا شکار

قبلِ ازیں شاہدرہ پولیس نے ساجد مسیح کے کزن پطرس مسیح کے خلاف بھی مبینہ طور پر توہینِ مذہب کے حوالے سے مواد فیس بک پر ’پاگلوں کی بستی‘ نامی پیج پر شائع کرنے کے الزام میں توہینِ مذہب کا مقدمہ دائر کیا تھا۔

ہسپتال میں زخمی حالت میں اپنا بیان ریکارڈ کرواتے ہوئے ساجد مسیح نے کہا کہ انھیں ایف آئی اے نے ریگل چوک پر موجود اپنے ہیڈ کوارٹر میں بیان ریکاڈ کروانے کے لیے بلایا تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ ایف آئی اے حکام نے انھیں مبینہ طور پر شدید تشدد کا نشانہ بنایا اور موبائل فون بھی چھین لیا۔

ساجد مسیح نے اپنے بیان میں الزام عائد کیا کہ ایف آئی اے حکام نے پہلے اسے اپنے آپ کو نازیبا الفاظ کہنے کو کہا اور اس نے ایسا کرنے سے انکار کر دیا۔

یہ بھی پڑھیں: چائلڈ پورنوگرافی کےخلاف علحیدہ ’فورس’ بنائی جائے: ایف آئی اے

انھوں نے کہا کہ ایف آئی اے حکام نے بعد میں اس سے اپنے کزن کو جنسی تشدد کا نشانہ بنانے کے لیے کہا لیکن وہ خاموش رہا اور اچانک سے عمارت سے چھلانگ لگا دی۔

ایف آئی اے کے ڈپٹی ڈائریکٹر خواجہ حماد نے ساجد مسیح کی جانب سے لگائے جانے والے الزامات کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ اس مشتبہ شخص کو تفتیش کے لیے بلایا گیا تھا جو فیس بک کے اس گروپ کا ممبر ہے جو توہینِ مذہب کا مواد شائع کرنے میں ملوث ہے۔

انھوں نے مزید کہا کہ ایف آئی اے حکام نے ساجد مسیح سے اس کا فون ان لاک کرنے کو کہا جس کے بعد وہ گھبرا گیا اور اس نے عمارت سے چھلانگ لگا دی۔

ڈپٹی ڈائریکٹر خواجہ حماد کا کہنا تھا کہ مشتبہ شخص کو ایف آئی اے حکام نے ہاتھ بھی نہیں لگایا۔

انھوں نے مزید بتایا کہ ایف آئی اے نے اب تک اس مشتبہ شخص کے موبائل کے پاس ورڈ کو توڑنے کی بھی کوشش نہیں کی کیونکہ اس کی وجہ سے اس میں موجود ڈیٹا کے ضائع ہونے کا خطرہ ہے۔


یہ خبر 25 فروری 2018 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں