مسلم لیگ (ن) کے سینئر رہنما ظفر علی شاہ تحریک انصاف میں شامل

اپ ڈیٹ 09 جولائ 2018
ظفر علی شاہ نے تحریک اںصاف میں شمولیت کے موقع پر عمران خان سے ملاقات کی— فوٹو: ڈان نیوز
ظفر علی شاہ نے تحریک اںصاف میں شمولیت کے موقع پر عمران خان سے ملاقات کی— فوٹو: ڈان نیوز

پاکستان مسلم لیگ (ن) کے سابق سینیٹر اور عمران خان کے قریبی دوست زلفی بخاری کے سسر سینیٹر ظفر علی شاہ نے پاکستان تحریک انصاف ( پی ٹی آئی ) میں شمولیت اخیتار کرلی۔

اسلام آباد میں تحریک اںصاف کے چیئرمین عمران خان سے ملاقات کے بعد ظفر علی شاہ نے باقاعدہ طور پر تحریک انصاف میں شمولیت کا اعلان کیا۔

اس موقع پر انہوں نے ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کی خاطر عمران خان کے ہاتھ مضبوط کرنے کی ضرورت ہے۔

مزید پڑھیں: ای سی ایل میں نام کے باوجود زلفی بخاری کی بیرون ملک روانگی، نیب کو تنفید کا سامنا

انہوں نے کہا کہ پاکستان کو عمران خان نے امید دلائی ہے اور عمران خان وہ سیاست دان ہیں جس پر کوئی داغ نہیں ہے۔

ظفر علی شاہ نے کہا کہ تحریک انصاف میں شمولیت کا فیصلہ شاید یہ میری زندگی کا آخری سیاسی سفر ہو۔

لوگوں کے ضمیر جاگ رہے ہیں، عمران خان

بعد ازاں عمران خان نے شمولیتی تقریب کے موقع پر کارکنوں سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ظفر علی شاہ کو تحریک انصاف میں خوش آمدید کہتا ہوں۔

انہوں نے کہا کہ لوگوں کے ضمیر جاگ رہے ہیں، ظفر علی شاہ ذہنی طور پر بہت پہلے ہی تحریک انصاف میں شامل ہوچکے تھے۔ عمران خان کا کہنا تھا کہ ظفر علی خان جب مسلم لیگ (ن) میں تھے تب بھی ہم ان کی عزت کرتے تھے کیونکہ وہ کرپٹ نہیں تھے اور انہوں نے کبھی بھی غلط کام کی حمایت نہیں کی۔

انہوں نے کہا کہ جمہوریت کی خوبی یہ ہے کہ آپ کے مختلف نظریےہوتے ہیں، آپ نظریے سے اختلاف ضرور کرتے لیکن ان کی عزت کرتے ہیں۔

اس موقع پر عمران خان نے اس بات کا اعتراف کیا کہ این اے 53 اسلام آباد میں پی ٹی آئی زمینی سطح پر کمزور ہے، ظفر علی شاہ کی شمولیت سے تحریک انصاف حلقے میں مضبوط ہو گی۔

چیئرمین تحریک انصاف کا کہنا تھا کہ پاکستان میں جمہوریت کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہوا کہ کوئی یہاں دین کے نام پر سیاست کر رہا تو کوئی لسانیت کی بنیاد پر، کوئی یہاں سوشلسٹ ہے تو کوئی کیپیٹلسٹ تاہم اس سب کے باوجود ان سے اتفاق رائے کیا جاسکتا لیکن مجرموں سے اتفاق رائے ممکن نہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ 5 سال تک پارلیمان میں جانے کا فائدہ اس لیے نہیں تھا کہ دونوں جماعتوں نے مک مکا کیا ہوا تھا اور کرپشن کو سامنے نہیں لانےدیتے تھے۔

نواز شریف کے خلاف ایون فیلڈ ریفرنس کے آنے والے فیصلے پر بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ نواز شریف نے کہا کہ جب تک میں وطن واپس نہ آؤں فیصلہ نہ سنایا جائے اور میرا انتظار کیا جائے، میں ان سے پوچھنا چاہتا ہوں کہ ہم کون سی دنیا میں بیٹھےہوئے ہیں کیونکہ قانون تو اندھا ہوتا اور سب کے یکساں ہوتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ مجھے امید ہے کہ نواز شریف کی درخواست نہیں سنی جائے گی اور فیصلہ مؤخر نہیں کیا جائے گا۔

عمران خان نے کہا کہ ہم سب کا دل کلثوم نواز کے ساتھ ہے، مجھے پتہ ہے کہ کینسر بہت بری بیماری ہے لیکن اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ اسے قوم کو جذباتی طور پر بلیک میل کرنے کے لیے استعمال کریں۔

نواز شریف پر تنقید کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ جب نواز شریف یہاں جلسے کر رہے تھے تو انہیں کلثوم نواز یاد نہیں تھیں لیکن جب آپ کے خلاف فیصلہ آنے لگا تو آپ کہتے ہیں کہ انتظار کرنا چاہیے۔

ان کا کہنا تھا کہ قوم کا پیسہ چوری کرکے بیرون ملک بھیجا گیا اور نواز شریف نے قوم کے 300 ارب روپے کا جواب دینا ہے۔

انہوں نے کہا کہ نواز شریف ایون فیلڈ ریفرنس کا فیصلہ اخبارات میں پڑھیں گے اور جب وہ پاکستان واپس آئیں گے تو اڈیالہ جیل ان کا انتظار کر رہی ہوگی۔

ظفر علی شاہ کون ہیں؟

خیال رہے کہ ظفر علی شاہ سینئر سیاست دان ہیں وہ سینیٹ سمیت قومی اور پنجاب کی صوبائی اسمبلی کے رکن بھی رہ چکے ہیں۔

ظفر علی خان نے مسلم لیگ (ن) کے ٹکٹ پر 1997 کے انتخابات میں این اے 48 سے کامیابی حاصل کی تھی اور حیران کن بات یہ ہے کہ اس نشست پر عمران خان کو بھی شکست ہوئی تھی۔

2002 کے انتخابات میں بھی وہ مسلم لیگ(ن) کے ٹکٹ سے قومی اسمبلی کی نشست پر انتخاب لڑے تھے لیکن کامیاب نہیں ہوسکے تھے۔

یہ بھی پڑھیں: مسلم لیگ(ن) کی ایک اور وکٹ کرگئی،سابق وزیرمملکت تحریک انصاف میں شامل

ظفر علی شاہ 2009 میں سینٹر منتخب ہوئے اور 2015 تک فرائض انجام دیے، 2015 میں انہوں نے اسلام آباد میں بلدیاتی انتخابات میں چیئرمین شپ کے لیے انتخاب لڑا تھا لیکن کامیاب نہیں ہو پائے تھے۔

واضح رہے کہ ظفر علی شاہ کی جانب سے تحریک انصاف میں شامل ہونے کا فیصلہ پہلے ہی کرلیا گیا تھا، تاہم اس بات کا باضابطہ طور پر اعلان نہیں کیا گیا تھا۔

یہاں یہ بات بھی واضح رہے کہ مسلم لیگ (ن) میں رہنے کے باوجود کچھ عرصے سے ظفر علی شاہ کے پارٹی پالیسی سے اختلافات سامنے آئے تھے اور انہوں نے پارٹی پالیسی کے خلاف بات بھی کی تھی۔

اس کے علاوہ ڈان سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ 28 جولائی 2017 کو پاناما پیپرز کیس کے فیصلے میں نواز شریف کو نااہل قرار دیے جانے پر یہ ثابت ہوگیا کہ وہ صادق اور امین نہیں رہے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں