ہرارے: زمبابوے کی تاریخ میں سابق صدر رابرٹ موگابے کے بغیر ہونے والے پہلے انتخابات میں حکمران جماعت نے اپنا کنٹرول برقرار رکھا اور زمبابوین صدر ایمرسن مننگاگوا نے 50 فیصد سے زائد ووٹ حاصل کرکے کامیابی حاصل کرلی۔

امریکی خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس (اے پی) کی رپورٹ کے مطابق ایمرسن مننگاگوا نے 50.8 فیصد جبکہ اپوزیشن جماعت کے نیلسن چیمیسا نے 44.3 فیصد ووٹ حاصل کیے، تاہم اپوزیشن اس فیصلے کو عدالتوں میں چیلنج کرنے یا سڑکوں پر احتجاج کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔

انتخابات میں کامیابی کے بعد زمبابوین صدر کا کہنا تھا کہ وہ اپنی کامیابی پر عاجزی کا اظہار کرتے ہیں، اگرچہ انتخابات کے وقت ہم تقسیم تھے لیکن ہمارے خواب ایک تھے اور ہم متحد تھے۔

مزید پڑھیں: رابرٹ موگابے کے بغیر زمبابوے کے پہلے تاریخی انتخابات

ٹوئٹر پر ایک ٹوئٹ کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ’یہ ایک نئی شروعات ہے، لہٰذا امن، اتحاد، محبت اور ایک نئے زمبابوے کی تعمیر کے لیے ہاتھ ملائیں‘۔

خیال رہے کہ زمبابوے میں پیر کو شروع ہونے والے انتخابات پر امن تھے تاہم دارالحکومت ہرارے میں دھاندلی کے خلاف احتجاج کرنے والے مظاہرین پر فوج کی جانب سے فائرنگ کیے جانے کے بعد یہ پرتشدد شکل اختیار کرگئے تھے۔

انتخابی عمل کے خلاف ہونے والے مظاہروں میں 6 افراد ہلاک جبکہ 14 زخمی ہوئے جبکہ پولیس نے اپوزیشن جماعت کے دفتر سے 18 افراد کو حراست میں لے لیا تھا۔

اس حوالے سے انتخابی عمل کی نگرانی کرنے والے مغربی مبصرین نے فوج کی جانب سے طاقت کا استعمال کرنے پر شدید تحفظات کا اظہار کیا، انہوں نے کہا کہ ایک ایسے ملک میں جس کی معیشت کئی سال قبل ہی تباہ ہوچکی ہے وہاں بین الاقوامی پابندیاں ختم کرنے کے لیے انتخابات کا انعقاد انتہائی ضروری تھا۔

دوسری جانب انتخابی نتائج کے اعلان سے قبل اپوزیشن الائنس کے چیف ایجنٹ مورگن کومیچی کا کہنا تھا کہ ان کی جماعت انتخابی نتائج کو ’مکمل طور‘ پر مسترد کرتی ہے اور وہ اس نتیجے پر دستخط نہیں کریں گے۔

انہوں نے بتایا کہ ان کی جماعت نے انتخابی کمیشن کی جانب سے ایمرسن مننگاگوا کی فتح کے دستاویز پر دستخط کرنے کی درخواست کو مسترد کردیا کیونکہ یہ انتخابات ’دھوکا‘ تھے اور اس میں ہر عمل ’غیر قانونی‘ تھا۔

اپوزیشن رہنما نے کہا کہ ’ہم ان انتخابات کا حصہ نہیں ہیں اور ان انتخابات کو عدالتوں میں چیلنج کیا جائے گا‘۔

خیال رہے کہ اس طرح کا تاثر بھی پیش کیا جارہا کہ ہرارے میں ہونے والے فسادات کے بعد ایمرسن مننگاگوا کے انتخابات سیاسی بحران کو مزید بڑھائیں گے۔

یاد رہے کہ زمبابوے میں ہونے والے یہ انتخابات کو کافی اہمیت دی گئی تھی کیونکہ یہ انتخابات ملکی تاریخ کے سب سے صاف اور شفاف انتخابات تصور کیے جارہے تھے۔

ان انتخابات کی سب سے اہم بات یہ تھی کہ اس میں تقریباً 4 دہائیوں تک زمبابوے پر راج کرنے والے سابق صدر رابرٹ موگابے حصہ نہیں لے رہے تاہم یہ تاثر پیش کیا گیا تھا کہ اگرچہ رابرٹ موگابے انتخابات میں شامل نہیں ہیں لیکن ان کا اثر و رسوخ اب بھی باقی ہوگا۔

یہ بھی پڑھیں: زمبابوے: انتخابی دھاندلی کے خلاف احتجاج، فوج کی فائرنگ سے 3 ہلاک

خیال رہے کہ 21 نومبر 2017 کو رابرٹ موگابے نے ان کی حکمراں جماعت کی جانب سے مواخذے کے اعلان کے بعد معاہدے کے تحت استعفیٰ دے دیا تھا جبکہ فوج نے پہلے ہی مداخلت کرکے اختیارات ہاتھ میں لے لیے تھے۔

موگابے کی جانب سے استعفے کے اعلان کے ساتھ ہی ان کے 37 سالہ طویل حکمرانی کا خاتمہ ہوگیا تھا جس کے ساتھ ہی ان کے سابق نائب صدر ایمرسن میننگاگوا کو متبادل صدر منتخب کیا تھا۔

94 سالہ رابرٹ موگابے دنیا کے معمر ترین سربراہ تھے جن کے اقتدار کا خاتمہ 37 سال بعد ہوا تھا۔

رابرٹ موگابے نے 1980 میں زمبابوے کی برطانیہ سے آزادی کے بعد پہلے وزیراعظم کا عہدہ سنبھالا تھا جبکہ وہ 1987 میں صدر بن گئے تھے اور انہیں زمبابوے کی آزادی کے صف اول کے رہنما کی حیثیت حاصل ہے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں