ہرارے: زمبابوے میں طویل عرصے تک اقتدار میں رہنے والے سابق صدر رابرٹ موگابے کے بغیر ہونے والے پہلے تاریخی انتخابات میں دونوں حریف صدارتی امیدواروں نے اپنی جیت کا دعویٰ کردیا۔

امریکی نشریاتی ادارے سی این این کی رپورٹ کے مطابق زمبابوے میں ہونے والے انتخابات کو کافی اہمیت دی جارہی ہے کیونکہ یہ انتخابات ملکی تاریخ کے سب سے صاف اور شفاف انتخابات تصور کیے جارہے ہیں۔

ان انتخابات کی سب سے اہم بات یہ ہے کہ اس میں تقریباً 4 دہائیوں تک زمبابوے پر راج کرنے والے سابق صدر رابرٹ موگابے حصہ نہیں لے رہے، تاہم ایک تاثر یہ بھی پیش کیا جارہا کہ اگرچہ رابرٹ موگابے انتخابات میں شامل نہیں ہیں لیکن ان کا اثر و رسوخ اب بھی باقی ہے۔

مزید پڑھیں: زمبابوے کے سابق صدر موگابے کیلئے بھاری مراعات کا اعلان

انتخابات کے حوالے سے زمبابوے کے انتخابی کمیشن کا کہنا تھا کہ تقریباً 70 فیصد رجسٹرڈ ووٹرز نے اپنا حق رائے دہی استعمال کیا۔

دوسری جانب ووٹ کاسٹ کرنے سے قبل رابرٹ موگابے کا کہنا تھا کہ وہ اپنی سابق جماعت زانو پی ایف یا صدارتی امیدوار ایمرسن میننگاگوا کو ووٹ نہیں دیں گے۔

انہوں نے کہا کہ ’ میں زانو-پی ایف کو ووٹ نہیں دوں گا، میں ان لوگوں کے لیے ووٹ نہیں دوں گا جو مجھے اس حالت میں لانے کے ذمہ دار ہیں۔

زمبابوے کے سابق صدر کا کہنا تھا کہ میں واضح کہنا چاہتا ہوں کہ میں انہیں ووٹ نہیں دے سکتا جنہوں نے مجھ پر یہ عذاب ڈالا بلکہ میں 23 میں سے دیگر 22 امیدواروں میں سے کسی کو ووٹ ڈالوں گا۔

ادھر فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کی رپورٹ کے مطابق زمبابوین صدر ایمرسن میننگاگوا کا کہنا تھا کہ ان کی جماعت زانو پی ایف کو کافی مثبت اعداد و شمار موصول ہوئے ہیں جبکہ اپوزیشن لیڈر نیلسن چامیسا کا کہنا تھا کہ ان کی جماعت موومنٹ فار ڈیموکریٹک چینج ( ایم ڈی سی) پارٹی ’ جیتے کی پوزیشن‘ میں ہے۔

تاریخی انتخابات کے نتائج سے متعلق دعووں سے الزامات اور الفاظ کی جنگ میں شدت آگئی ہے۔

75 سالہ زمبابوین صدر اور رابرٹ موگابے کے سابق ساتھی نے ٹوئٹر پر ایک پیغام میں کہا کہ ’ ہماری کارکردگی سے متعلق زمینی حقائق کافی مثبت ہیں! لیکن ہم آئین کے مطابق صبر و تحمل سے باضابطہ نتائج کا انتظار کر رہے ہیں‘۔

انتخابات کے نتائج کا اعلان 4 اگست کو کیا جائے گا، زمبابوین صدر کے انتخابات سمیت 2 سو 10 ارکان پارلیمنٹ اور 9 ہزار کونسلرز کو بھی منتخب کیا جائے گا۔

ملکی قوانین کے مطابق اگر کسی صدارتی امیدوار نے مجموعی طور پر ڈالے گئے ووٹوں کا 50 فیصد حاصل نہ کیا تو صدارتی الیکشن 8 ستمبر کو دوبارہ کرایا جائے گا۔

دوسری جانب انتخابی مہم کے دوران ووٹر فراڈ کا الزام لگانے والے اپوزیشن رہنما نیلسن چمیسا کا کہنا تھا کہ ان کی جماعت کے پاس 10 ہزار سے زائد پولنگ اسٹیشن کے نتائج ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ’ ہم نے کافی اچھی کارکردگی پیش کی اور ہم جیت رہے ہیں اور آئندہ حکومت بنانے کے لیے تیار ہیں‘۔

خیال رہے کہ 21 نومبر 2017 کو رابرٹ موگابے نے ان کی حکمراں جماعت کی جانب سے مواخذے کے اعلان کے بعد معاہدے کے تحت استعفیٰ دے دیا تھا جبکہ فوج نے پہلے ہی مداخلت کرکے اختیارات ہاتھ میں لے لیے تھے۔

یہ بھی پڑھیں: زمبابوے:صدر رابرٹ موگابے کے 37 سالہ اقتدار کا اختتام

موگابے کی جانب سے استعفے کے اعلان کے ساتھ ہی ان کے 37 سالہ طویل حکمرانی کا خاتمہ ہوگیا تھا جس کے ساتھ ہی ان کے سابق نائب صدر ایمرسن میننگاگوا کو متبادل صدر منتخب کیا تھا۔

94 سالہ رابرٹ موگابے دنیا کے معمر ترین سربراہ ریاست تھے جن کے اقتدار کا خاتمہ 37 سال بعد ہوا تھا۔

رابرٹ موگابے نے 1980 میں زمبابوے کی برطانیہ سے آزادی کے بعد پہلے وزیراعظم کا عہدہ سنبھالا تھا جبکہ وہ 1987 میں صدر بن گئے تھے اور انہیں زمبابوے کی آزادی کے صف اول کے رہنما کی حیثیت حاصل ہے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں