سپریم کورٹ میں بنی گالا تجاوزات کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس آف پاکستان نے ریمارکس دیے ہیں کہ چند روز میں عمران خان کی حکومت آنے والی ہے، عمران خان لوگوں کے لئے مثال بنیں، انہوں نے بنی گالا تجاوزات کے خلاف درخواست دی تھی، اب وہ خود ہی اس مسئلے کو حل کریں۔

چیف جسٹس کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے بنی گالا تجاوزات سے متعلق کیس کی سماعت کی۔

سماعت کے دوران چیف جسٹس نے کہا کہ بنی گالا تجاوزات کی درخواست عمران خان نے ہی دی تھی، اب وہ خود اس مسئلے کو دیکھیں جس پر وکیل بابر اعوان نے کہا کہ یقین دلاتا ہوں کہ وزیراعظم لوگوں کے لیے مثال بنیں گے۔

جس کے جواب میں چیف جسٹس ثاقب نثار نے کہا کہ عمران خان ابھی ملک کے وزیراعظم نہیں بنے بلکہ بننے والے ہیں۔

یہ بھی پڑھین: بنی گالا کیس: سروے جنرل آفس کے سربراہ سپریم کورٹ میں طلب

ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ نئ حکومت کو بنی گالا تجاویزات سے متعلق فیصلہ کرنے دیا جائے، بنی گالا میں تجاوزات پر دفعہ 144 نافذ ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ عمران خان بنی گالا کے مسائل سے آگاہ ہیں اگر وہ بنی گالا کے مسائل حل کر لیتے ہیں تو ہمیں کوئی مسئلہ نہیں ہے۔

سروے جنرل کمرہ عدالت میں پیش میں تو چیف جسٹس نے کہا کہ عدالت سروے جنرل آفس کی کارکردگی سے مطمئن نہیں ہے، سروے جنرل آفس کی جانب سے دارالحکومت اور کورنگ نالہ کی حد بندی کا تاحال سروے نہیں کیا گیا۔

سروے جنرل نے عدالت کے سامنے جواب پیش کیا کہ کورنگ نالہ کے سروے کے لیے ہمیں ریکارڈ اور نقشے چاہئیں۔

اس موقع پر چیف جسٹس نے محکمہ مال کی سرزنش کرتے ہوئے کہا کہ محکمہ مال سروے آفس کو آج ہی مطلوبہ ریکارڈ فراہم کرے، جو ریاستی ادارے تعاون نہ کریں اس کے خلاف ایکشن لیں گے۔

چیف جسٹس کا مزید کہنا تھا کہ محکمہ مال کے حکام جب تک سروے جنرل آفس کو ریکارڈ فراہم نہ کرتے، سپریم کورٹ سے نہیں جائیں گے۔

عدالت عظمیٰ نے محکمہ مال سیکریٹری کو سروے جنرل آفس کو مطلوبہ ریکارڈ فراہم کرنے کا حکم دیتے ہوئے سروے جنرل آفس کورنگ نالے کا سروے 6 ہفتوں میں مکمل کرنے کا حکم دے دیا۔

بعد ازاں کیس کی سماعت 6 ہفتوں کے لئے ملتوی کر دی گئی۔

بنی گالا تجاوزات کیس کی تفصیل

بنی گالا اسلام آباد کا ایک علاقہ ہے جہاں تجاوزات کے حوالے سے کیس سپریم کورٹ میں زیرِ التوا ہے، تاہم 13 فروری کو سپریم کورٹ نے چیئرمین تحریک انصاف عمران خان کو بنی گالا میں تعمیر اپنی 300 کنال کی رہائش گاہ کا منظور شدہ سائٹ پلان عدالت میں جمع کرانے کا حکم دیا تھا۔

تاہم عمران خان کے وکیل کی جانب سے دستاویزات جمع کرانے کے بعد 22 فروری کو کیس کی سماعت کے دوران ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے انکشاف کیا تھا کہ بنی گالا میں عمران خان کے گھر کی تعمیر کا سائٹ پلان منظور شدہ نہیں۔

28 فروری کو اسلام آباد کی ضلعی انتظامیہ نے عمران خان کے بنی گالہ میں قائم گھر کی تعمیرات کے معاملے پر رپورٹ سپریم کورٹ میں جمع کروائی تھی جس کے مطابق سابق سیکریٹری یونین کونسل (یو سی) نے بنی گالا گھر کے این او سی کو جعلی قرار دیا تھا۔

6 مارچ کو ہونے والی سماعت کے دوران چیف جسٹس پاکستان میاں ثاقب نثار نے بنی گالہ تجاوزات کیس کی سماعت کے دوران کہا تھا کہ ہماری نظر میں عمران خان کی رہائش گاہ غیر قانونی ہے۔

27 مارچ کو سماعت کے دوران چیف جسٹس پاکستان میاں ثاقب نثار نے بنی گالہ تعمیرات کیس میں آئندہ سماعت تک راول جھیل کی دیکھ بھال سمیت تمام مسائل کا حل اور اس حوالے سے تجاویز طلب کی تھیں جبکہ لیز پر لی گئی 11 زمینوں کے مالکان کو نوٹسز بھی جاری کر دیے تھے۔

خیال رہے کہ ڈان میں شائع ہونے والے ایک مضمون کے مطابق نیشنل پارک کی تجویز 1960 میں اسلام آباد کے ماسٹر پلان کا حصہ تھی، جو یونانی آرکیٹیکچر کانسٹینٹ تینس اپوستولس ڈوکسڈز نے دی تھی، اس تجویز کے تحت آج جس جگہ بنی گالا واقع ہے، وہیں ایک بہت بڑا درختوں سے بھرا پارک بنایا جانا تھا۔

بہت کم لوگ ایسے ہیں جو یہ جانتے ہیں کہ بنی گالا عمران خان اور عبدالقدیر خان جیسے نامور لوگوں کی رہائش گاہ بننے سے قبل دارالحکومت اسلام آباد کے لیے مجوزہ نیشنل پارک کے لیے مختص کی جانے والی جگہ ہے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں