اسلام آباد: احتساب عدالت نے قومی احتساب بیورو (نیب) کی جانب سے سابق وزیراعظم نواز شریف کے خلاف دائر العزیزیہ ریفرنس میں ملزم کے وکیل کی جانب سے جمع کرائی گئی درخواست مسترد کرتے ہوئے سماعت 15 اگست تک کے لیے ملتوی کردی۔

اڈیالہ جیل حکام نے سخت سیکیورٹی حصار میں مسلم لیگ (ن) کے تاحیات قائد نواز شریف کو نیب کے دائر کردہ العزیزیہ ریفرنس میں احتساب عدالت میں پیش کیا تاہم اس دوران ضلعی انتظامیہ نے میڈیا کو سماعت کی کوریج سے روک دیا۔

اس دوران جوڈیشل کمپلیکس کے باہر تعینات سیکیورٹی اہلکار سے غلطی سے گولی چل گئی جس پر سپرنٹنڈنٹ پولیس (ایس پی) ذیشان حیدر نے پولیس اہلکار سے گن واپس لے کر انہیں معطل کردیا۔

یہ بھی پڑھیں: العزیزیہ ریفرنس: ہائیکورٹ میں درخواست زیر سماعت، احتساب عدالت کی کارروائی ملتوی

واضح رہے کہ پاکستان مسلم لیگ (ن) کے قائد نواز شریف، ان کی صاحبزادی مریم نواز اور داماد کیپٹن (ر) محمد صفدر ایون فیلڈ ریفرنس میں اڈیالہ جیل میں سزا کاٹ رہے ہیں۔

العزیزیہ ریفرنس کے حوالے سے احتساب عدالت میں جاری سماعت کے دوران پاناما جے آئی ٹی کے سربراہ اور استغاثہ کے گواہ واجد ضیاء بھی عدالت کے روبرو پیش ہوئے تھے۔

سابق وزیراعظم نوازشریف کی جانب سے ایڈووکیٹ ظافر خان اور نیب کی جانب سے اسپیشل پراسیکیوٹر افضل قریشی عدالت میں پیش ہوئے۔

احتساب عدالت میں العزیزیہ ریفرنس میں واجد ضیاء کا بیان قلمبند ہونا تھا جس پر ایڈووکیٹ ظافر خان نے درخواست کی کہ واجد ضیاء کا بیان قلمبند کرنے کے بجائے جراح کی جائے۔

احتساب عدالت کے جج ارشد ملک نے ریمارکس دیئے کہ سپریم کورٹ کی ہدایت ہے کہ ریفرنسز میں زیادہ تاخیر نہیں کرسکتے۔

اس حوالے سے نوازشریف کے وکیل خواجہ حارث کی جانب سے احتساب عدالت میں متفرق درخواست بھی دائر کی گئی تھی۔

مزیدپڑھیں: شریف خاندان کے خلاف نیب ریفرنسز کی سماعت کی مدت میں 9 جون تک توسیع

درخواست میں موقف اختیار کیا گیا کہ عدالت واجد ضیاء کا آج فلیگ شپ ریفرنس میں بیان قلمبند کرلے اور ریفرنسز کی کاروائی میں کسی طرح کی تاخیر نہیں چاہتے۔

درخواست کے موقف اختیار کیا گیا تھا کہ ’فلیگ شپ میں واجد ضیاء کا بیان قلمبند کرنے کے بعد سماعت ملتوی کردی جائے‘۔

جس پر عدالت نے فلیگ شپ میں پیر (13 اگست) کو واجد ضیاء کا بیان قلمبند کرنے کی استدعا مسترد کردی۔

ملزم اور گواہ کی حاضری کے بعد سماعت بدھ 15 اگست تک کے لیے ملتوی کردی گئی۔

واضح رہے کہ کیس کی سماعت کے دوران میڈیا کو داخلے کی اجازت نہیں دی گئی اور مسلم لیگ (ن) کے رہنماؤں کو بھی روکا گیا۔

اس حوالے سے بتایا گیا کہ مسلم لیگ (ن) کے رہنما پرویز رشید اور بیرسٹر ظفر اللہ کو کمرہ عدالت جانے کی اجازت دی گئی۔

بعدازاں صحافیوں نے جج ارشد ملک سے ملاقات کی اور انتظامیہ کے رویے کی شکایت کی جس پر جج ارشد ملک نے صحافیوں کو سماعت کی کوریج کے لیے باقاعدہ اجازت دے دی۔

واضح رہے کہ العزیزیہ ریفرنس کیس کی سماعت کے لیے نواز شریف کو بکتر بند گاڑی میں احتساب عدالت لایا گیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: نوازشریف پر فلیگ شپ انویسٹمنٹ ریفرنس میں بھی فرد جرم عائد

العزیزیہ ریفرنس کیس کی سماعت جج ملک ارشد کررہے ہیں دوسری جانب اس موقع پر متعلقہ حکام نے احتساب عدالت کی سیکیورٹی بڑھا دی تھی۔

اس موقع پر مسلم لیگ (ن) کے رہنما پرویز رشید اور آصف کرمانی سمیت پارٹی کے دیگر رہنما بھی اسلام آباد کی احتساب عدالت پہنچے تھے۔

واضح رہے کہ احتساب عدالت کی جانب سے نواز شریف کے صاحبزادے حسن اور حسین نواز کو اشتہاری قرار دیتے ہوئے ان کے دائمی وارنٹ گرفتاری بھی جاری کیے جا چکے ہیں۔

دوسری جانب اسلام آباد ہائی کورٹ کا 2 رکنی بینچ ایون فیلڈ ریفرنس میں سزا یافتہ نواز شریف، مریم نواز اور کیپٹن ریٹائرڈ صفدر کی سزا معطل کرنے کے حوالے سے دائر درخواستوں پر سماعت کرے گا۔

مذکورہ بینچ میں جسٹس اطہر من اللہ اور جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب شامل ہیں۔

خیال رہے کہ اسلام آباد ہائیکورٹ کی جانب سے العزیزیہ اور فلیگ شپ ریفرنسز کی دوسری عدالت میں منتقلی سے متعلق نواز شریف کی درخواست پر نیب کو نوٹس جاری کیا تھا۔

جس کے بعد اسلام آباد کی احتساب عدالت کے جج محمد بشیر کو ریفرنسز کی مزید سماعت سے روک دیا تھا اور العزیزیہ ریفرنس کیس کی سماعت جج ملک ارشد کی کورٹ میں منتقل کردی تھی۔

یاد رہے کہ سپریم کورٹ کے پاناما پیپرز کیس کے حتمی فیصلے میں دی گئی ہدایات کی روشنی میں قومی احتساب بیورو (نیب) کی جانب سے نواز شریف اور ان کے صاحبزادوں حسن نواز اور حسین نواز کے خلاف 3 ریفرنسز دائر کیے گئے تھے جبکہ مریم نواز اور کیپٹن ریٹائر صفدر کا نام ایون فیلڈ ایونیو میں موجود فلیٹس سے متعلق ریفرنس میں شامل ہے۔

خیال رہے کہ 20 اکتوبر 2017 کو قومی احتساب بیورو (نیب) کی جانب سے فلیگ شپ انویسمنٹ کے حوالے سے دائر ریفرنس کے سلسلے میں اسلام آباد کی احتساب عدالت نے دو ریفرنس (ایون فیلڈ ریفرنس اور عزیزیہ اسٹیل) میں نوازشریف، مریم نواز اور کیپٹن صفدر پرفرد جرم عائد کی گئی تھی۔

احتساب عدالت کے جج محمد بشیر نے ملزمان کے خلاف چارج شیٹ پڑھ کر سنائی تھی۔

عدالت نے فرد جرم سناتے ہوئے کہا گیا کہ نواز شریف نے جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم کو بتایا کہ وہ 15 کمپنیوں کے شیئر ہولڈر تھے، جن میں فلیگ شپ انویسٹمنٹ، ہارٹ اسٹون پروپرٹیز، کیو ہولڈنگ، کوئنٹ ایٹون پلیس ٹو، کوئنٹ سالوانے، کوئنٹ، فلیگ شپ سیکیورٹیز، کوئنٹ گلوسیسٹر پلیس، کوئنٹ پیڈنگٹن، فلیگ شپ ڈویلپمنٹس، الانا سروسز (بی وی آئی)، لنکن ایس اے (بی وی آئی)، چیڈرون، انسبیچر، کومبر اور کیپٹل ایف زیڈ ای، دبئی شامل ہیں۔

عدالت کا کہنا تھا کہ 1991 تک نواز شریف نے سب کچھ اپنے نام پر رکھا جبکہ نواز شریف نے 1991 کے بعد بچوں کو کاروبار منتقل کیا اور سابق وزیراعظم سیاست میں آنے کے بعد بھی اپنے نام پر کاروبار کرتے رہے جبکہ نواز شریف کے مطابق انہوں نے حسن نواز کے 1990 سے 1995 تک کا ریکارڈ جمع کرایا۔

اس میں مزید نشاندہی کی گئی کہ نواز شریف نے 1983 اور 1984 سے ٹیکس دینا شروع کیا اور اس کے بعد نواز شریف، وزیراعلیٰ اور وزیراعظم کے عہدوں پر تعینات رہے جبکہ 1989اور1990میں حسن اور حسین نواز شریف کے زیر کفالت تھے۔

تاہم نواز شریف کے نمائندے ظافر خان نے صحت جرم سے انکار کیا تھا۔

جس کے بعد احتساب عدالت نے سابق وزیراعظم پر فلیگ شپ انویسٹمنٹ ریفرنس میں بھی فرد جرم عائد کردی جبکہ ان کے دونوں صاحبزادوں حسن نواز، اور حسین نواز کو مفرور ملزمان قرار دے دیا تھا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (1) بند ہیں

atif Aug 13, 2018 12:40pm
Baktar band gari mein hony k bawajood 14 security cars ka protocol... are you kidding me.. why ?