نیشنل بینک آف پاکستان (این بی پی) نے گنے کے کسانوں یا بینکوں کو ادائیگی میں ڈیفالٹ ہونے سے بچنے کے لیے سندھ میں اومنی گروپ کی 8 شوگر ملز کو کام کرنے کی اجازت دینے کے حوالے سے ایک کمیٹی تشکیل دینے کے لیے سپریم کورٹ سے رجوع کرلیا۔

اومنی گروپ کے وکیل نعیم بخاری کی جانب سے دائر کی گئی درخواست میں موقف اپنایا گیا ہے کہ نومبر میں کرشنگ کا سیزن شروع ہوجائے گا اور اگر ملوں نے فوری طورپر کام شروع نہیں کیا تو اس سے نہ صرف گنے کے کسان متاثر ہوں گے بلکہ نیشنل بینک سمیت دیگر بینک بھی گروپ کو دیے گئے قرضے واپس حاصل نہیں کرپائیں گے۔

درخواست گزار کے مطابق بینک کے پاس اس طرح کی صورت حال میں قرضوں کی واپسی کے لیے ملوں کے پلانٹس، مشینری، عمارت اور زمین بیچنے کے علاوہ کوئی اور چارہ نہیں ہوگا۔

ان کا کہنا ہے کہ ایک ایسے وقت میں جب ملکی معیشت پہلے ہی سست روی کا شکار ہے ایسے میں 8 ملوں میں گنے کی کرشنگ نہ ہونے سے صورت حال مزید گھمبیر ہوسکتی ہے۔

درخواست چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں 35 ارب کے جعلی اکاؤنٹس کے ذریعے منی لانڈرنگ کے کیس کی سماعت کرنے والے تین رکنی بنچ کو جمع کرادی گئی ہے۔

عدالت نے اومنی گروپ کی 8 شوگر ملوں یا ‘بے نامی’ کے حوالےسے تفتیش کے لیے حال ہی میں ایڈیشنل ڈائریکٹرجنرل فیڈرل انوسٹی گیشن ایجنسی (ایف آئی اے) احسان صادق کی سربراہی میں ایک خصوصی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) تشکیل دی تھی۔

ایف آئی اے نے 15 اگست کو اومنی گرپ آف کمپنیز کے خواجہ انور مجید، عبدالغنی مجید اور پاکستان اسٹاک ایکسچینج کے سابق چیئرمین حسین لوائی کو جعلی اکاؤنٹس کیس میں سپریم کورٹ کے حاطے سے گرفتار کرلیا تھا۔

عدالت عظمیٰ نے ان کی درخواستوں کو مسترد کرتے ہوئے ایف آئی اے کو حکم دیا تھا کہ انہیں ہستپال سے جیل منتقل کردیا جائے جہاں وہ زیرعلاج تھے۔

نیشنل بینک نے اپنی درخواست میں جے آئی ٹی کی جانب سے جمع کرادی گئی پانچویں رپورٹ کی روشنی میں اومنی گروپ اور نیشنل بینک کا تعلق اور بینکرز کے حوالے سے رپورٹ میں ‘غفلت’ کی وضاحت کر دی ہے۔

بینک نے واضح کیا ہے کہ اومنی گروپ اکاؤنٹس کھول کر اور مختلف مالی سہولیات حاصل کرکے 2003 میں ان کا صارف بن گیا تھا اور یہ رشتہ تاحال جاری ہے اسی طرح گروپ مارچ 2018 تک مارک اپ مسلسل ادا کرتا رہا ہے جب ایف آئی اے کی جانب سے 31 جولائی کو کمپنیوں کے اکاؤنٹس بلاک کرنے کے احکامات جاری کیا تھا۔

'15برسوں میں کبھی ڈیفالٹ نہیں ہوا’

نیشنل بینک آف پاکستان کا کہنا ہے کہ اومنی گروپ سے 2003 سے 2018 کے دوران نے 7 ارب روپے مارک اپ کی مد میں کمایا اور ایک مرتبہ بھی ڈیفالٹ یا معافی نہیں دی گئی۔

درخواست گزار نے مختلف شوگر ملوں اور دیگر جائیدادوں کے نام بھی دیے جن کے بارے میں ان کا ماننا ہے کہ یہ اومنی گروپ کی ملکیت ہیں، ان میں ٹنڈوالہٰیار شوگر ملز پرائیویٹ لمیٹڈ، انصاری شوگرملز لمیٹڈ، باوانی شوگر ملز لمیٹڈ، کھوسکی شوگر ملز پرائیویٹ لمیٹڈ، نوڈیرو شوگرملز پرائیویٹ لمیٹڈ، نیو دادو شوگرملز پرائیویٹ لمیٹڈ، دادو انرجی پرائیویٹ لمیٹڈ، لر شوگر ملز پرائیویٹ لمیٹڈ، چیمبر شوگر ملز پرائیویٹ لمیٹڈ وغیرہ شامل ہیں۔

نیشنل بینک آف پاکستان کا کہنا ہے کہ اومنی گرپ کے اکاؤنٹ منجمد ہونے سے پہلے معمول کے مطابق رقم جمع کرائی اورنکالی جاتی تھی اور نکالی جانے والی رقم کمپنیوں کے معمول کے کاموں کی ضروریات کے لیے ہوتی تھی۔


یہ خبر 21 اکتوبر 2018 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں