وفاقی وزیر توانائی عمر ایوب خان نے تصدیق کردی ہے کہ توانائی کے شعبے میں کرپشن اور نالائقی لوڈ شیڈنگ کے خاتمے میں رکاوٹ ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق سینیٹ کی قائمہ برائے توانائی کو آگاہ کرتے ہوئے وزیر توانائی نے کہا کہ ‘مسئلہ یہ ہے کہ اگر ہم بجلی کے بند دروازے بھی کھول دیں تو پھر بھی ہم لوڈ شیڈنگ کو ختم نہیں کرسکتے اور اس سے ملک کی معیشت کو نقصان پہنچے گا’۔

وزیر کا کہنا تھا کہ بجلی چوری ملک بھر میں پھیلی ہوئی ہے جو توانائی کی کمپنیوں کے عہدیداروں کی ملی بھگت کے بغیر ممکن نہیں ہے۔

سینٹر فدا محمد کی سربراہی میں سینیٹ کی قائمہ کمیٹی نے توانائی کے شعبے کی موجودہ صورت حال پر تشویش کا اظہار کیا، سینیٹر نعمان وزیر نے مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اس وقت گردشی قرضے 10 ارب ڈالر تک پہنچ گئے ہیں جو اتفاق سے پاکستان کی جانب سے عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) سے مانگے گئے قرض کے برابر ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ‘اگر آپ بجلی کے غیر ادا شدہ بل جمع کر پاتے تو آپ کو بیل آوٹ کے لیے جانے کی ضرورت نہیں ہوتی’۔

یہ بھی پڑھیں: ’کراچی میں بجلی کے بحران کا ذمہ دار کے-الیکٹرک‘

وفاقی وزیر نے کہا کہ بجلی کی تقسیم میں خامیوں کو دور کرنا ان کی اولین ترجیح ہے جس کے لیے انجینئرز کی تربیت اور نئی ٹیکنالوجی کو فوری طور پر متعارف کروانے کی ضرورت ہے۔

انہوں نے کہا کہ نظام میں نقصانات کو روکنے اور بجلی کی فراہمی کو یقینی بنانے کے لیے ٹرانسمیشن اور تقسیم کے نظام میں 5 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کی ضرورت ہے۔

وزیر توانائی کا کہنا تھا کہ توانائی کا محکمہ صوبائی اور مقامی حکومتوں اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی مدد سے بجلی چوری کے خلاف کارروائی کے لیے خصوصی ٹاسک فورس کی تشکیل میں صوبوں کے ساتھ بات کر رہا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ وہ خود اور سیکریٹری توانائی اگلے ہفتے بلوچستان کے مختلف علاقوں کا دورہ کریں گے اور اس حوالے سے صوبائی حکومت کو بھی اعتماد میں لیا جائے گا۔

مزید پڑھیں: لوڈشیڈنگ کا خاتمہ:’بجلی کے نظام میں 50 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کی ضرورت‘

عمر ایوب کا کہنا تھا کہ توانائی ڈویژن اس وقت توانائی کی کمپنیوں، صوبائی حکام اور اہم صارفین کی مدد سے بجلی چوری سے نمٹنے کے لیے ایک نظام کی تشکیل پر کام کر رہا ہے، تاکہ گرڈ اسٹیشن کی بندش کے بجائے زیادہ نقصان والے علاقوں میں بجلی کی معطلی کو ٹرانسفارمر کی سطح پر محدود کیا جائے۔

سیکریٹری توانائی عرفان علی کا کہنا تھا کہ انسداد چوری کی کارروائیاں بہت مشکل ہیں کیونکہ صارفین مزاحمت کرتے ہیں، چند روز قبل مستونگ میں شدید گھاٹے کا شکار ٹرانسفارمر کو اتارنے کی کوشش کے دوران کوئٹہ الیکٹرک سپلائی کمپنی کی ٹیم کو فرنٹیئر کانسٹیبلری (ایف سی) نے یرغمال بنالیا تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ کوئٹہ الیکٹرک سپلائی کمپنی کی ٹیم کے اراکین کو اسلام آباد سے مداخلت کے بعد چیف سیکریٹری اور پیراملٹری فورس کے اعلیٰ حکام کے ذریعے رہا کرایا گیا۔

وزیر توانائی عمر ایوب نے اعتراف کیا کہ یہاں تک کہ ان کے حلقے میں بھی کنڈا، بجلی چوری اور بل کی عدم ادائیگی کے علاوہ جعلی بلنگ بھی ہوتی ہے لیکن یہ کافی نہیں ہے، کرپشن کی کئی اور آماج گاہیں بھی ہیں جس میں پہلا میٹر ورکشاپ ہے، دوسرا ٹرانسفارمر، مٹیریل کی فراہمی تاحال ایک اور مسئلہ ہے اور ان تمام کو فوری طور پر ختم کرنا پڑے گا۔

یہ بھی پڑھیں: ہمارے اگلے 3 سے 6 ماہ سخت ہوں گے، وزیر اعظم

عمر ایوب نے کہا کہ بجلی کی چوری توانائی کی کمپنیوں کے عہدیداروں کے بغیر ممکن نہیں ہے جو بڑے کمرشل اور انڈسٹریل صارفین کی مدد کرتے ہیں تاہم اب حکومت نے بڑے چوروں اور ڈیفالٹرز کے خلاف انسداد چوری مہم شروع کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اسٹاف کی کمی ایک سنجیدہ مسئلہ تھا جس کی مثال دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ان کے حلقے میں 20 ہزار کنکشنز کے لیے صرف ایک میٹر ریڈر ہے جس کا مطلب ہے کہ انہیں عملی طور پر میٹر ریڈنگ کو یقینی بنانا ممکن نہیں ہے، یہاں تک کہ وہ ہیلی کاپٹر کا استعمال کرے۔

کمیٹی کو آگاہ کیا گیا کہ دیامر بھاشا ڈیم کے لیے درکار 37 ہزار 500 ایکڑ زمین میں سے 83 فیصد حاصل کرلی گئی ہے اور ڈیم کی تعمیر کا آغاز متوقع طورپر 2020 میں ہوگا اور 2028 میں مکمل ہوگا۔

مہمند ڈیم کی تعمیر کے حوالے سے کمیٹی کو بتایا گیا کہ مہمند ڈیم کی تعمیر کا آغاز اپریل 2019 میں متوقع ہے اور2025 میں مکمل ہوگا۔

تبصرے (0) بند ہیں