واشنگٹن: امریکا کے بین الاقوامی مذہبی آزادی کمیشن (یو ایس سی آئی آر ایف) نے پاکستان کے سپریم کورٹ کی جانب سے توہین مذہب کیس میں آسیہ بی بی کی سزائے موت کالعدم قرار دینے کے فیصلے کا خیر مقدم کیا اور ساتھ ہی مطالبہ کیا ہے کہ توہین مذہب کے الزام میں گرفتار دیگر ملزمان کو رہا کیا جائے۔

یو ایس سی آئی آر ایف نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ آسیہ بی بی کی بریت کے فیصلے کا خیر مقدم کرتے ہیں کیونکہ ان کے دفاع کے دوران پاکستانی حکومت کے دو حکام شہباز بھٹی اور سلمان تاثیر کو قتل کیا گیا۔

امریکا کے بین الاقوامی مذہبی آزادی کمیشن کے چیئرمین ٹینزن ڈورجی کا کہنا تھا کہ ’ آسیہ بی بی کا کیس واضح کرتا ہے کہ توہین مذہب کے قوانین کو کس حد تک اقلیتی برادری کو نشانہ بنانے کے لیے استعمال کیا جاسکتا ہے جبکہ ان قوانین کا مقصد فرد کے بجائے پورے مذہب کی حفاظت کرنا ہونا چاہیے، اس کے علاوہ اس کیس کو بین الاقوامی انسانی حقوق کے معیار کے مطابق ہونا چاہیے تھا‘۔

مزید پڑھیں: برطانوی پارلیمنٹ میں آسیہ بی بی کی بریت کا چرچہ، ’فیصلے کا خیر مقدم کرنا چاہیے‘

انہوں نے کہا کہ’ یہ انتہائی تکلیف دہ بات تھی کہ آسیہ بی بی کا کیس اس حد تک پہنچا، وہ پاکستان کی تاریخ میں توہین مذہب کے الزام میں سزائے موت پانے والی پہلی خاتون تھیں‘۔

دوسری جانب سپریم کورٹ کے اس فیصلے کے بعد پیش آنے والی صورتحال پر یو ایس سی آئی آر ایف نے پاکستانی حکام پر زور دیا کہ وہ آسیہ بی بی کی رہائی پر ان کی حفاظت کو یقینی بنائیں‘

امریکی ادارے نے آسیہ بی بی کے فیصلے کا جہاں ایک طرف خیر مقدم کیا وہیں انہوں نے حکومت پاکستان سے مطالبہ بھی کیا کہ توہین مذہب کے الزام میں قید 40 افراد کو رہا کیا جائے۔

یہاں یہ بات واضح رہے کہ 2002 سے ہر سال یو ایس سی آئی آر ایف کی جانب سے یہ سفارش کی جاتی ہے کہ ’مذہبی آزادی کی خلاف ورزی‘ پر پاکستان کو ’خاص تشویشناک ملک‘ قرار دیا جائے۔

اس کے علاوہ یو ایس آئی آر ایف کی جانب سے یہ بھی مطالبہ سامنے آتا رہا ہے کہ ’مذہبی آزادی کی خلاف ورزی‘ کے ذمہ دار لوگوں کے اثاثے منجمد اور ویزے منسوخ کیے جائیں۔

خیال رہے کہ 31 اکتوبر کو سپریم کورٹ آف پاکستان نے توہین مذہب کیس میں مسیحی خاتون آسیہ بی بی کی سزائے موت کو کالعدم قرار دیتے ہوئے انہیں بری کرنے کا حکم دیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: ’آسیہ بی بی کا فیصلہ دینے والے ججز کسی سے کم عاشق رسولﷺ نہیں‘

چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے ابتدائی طور پر مختصر فیصلہ پڑھ کر سنایا تھا اور ٹرائل کورٹ اور لاہور ہائیکورٹ کے فیصلے کو کالعدم قرار دیا تھا۔

عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا تھا کہ اگر آسیہ بی بی کسی اور کیس میں مطلوب نہیں ہیں تو انہیں فوری رہا کیا جائے۔

بعد ازاں عدالت کی جانب سے 57 صفحات پر مشتمل تحریری فیصلہ اردو میں جاری کیا تھا، جو چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے تحریر کیا تھا جبکہ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے الگ اضافی نوٹ تحریر کیا تھا۔

عدالت کی جانب سے دیے گئے تحریری فیصلے کا آغاز کلمہ شہادت سے کیا گیا تھا جبکہ اس میں قرآنی آیات اور احادیث کا ترجمہ بھی تحریر کیا گیا تھا

چیف جسٹس نے عدالتی فیصلے میں کہا تھا کہ’ یہ قانون کا ایک بنیادی اصول ہے کہ دعویٰ کرنے والے کو الزامات ثابت کرنے ہوتے ہیں، لہٰذا یہ استغاثہ کی ذمہ داری ہے کہ وہ مقدمے کی سماعت کے دوران شک کے بجائے ملزم پر الزمات ثابت کرے۔

تحریری فیصلے میں کہا گیا تھا کہ’ ملزم کو اس وقت تک بے گناہ تصور کیا جاتا ہے جب تک استغاثہ ٹھوس ثبوت کی بنیاد پر مدعی کی جانب سے ملزم پر لگائے گئے الزمات پرعدالت کو مطمئن کرنے میں کامیاب نہیں ہوتا‘۔

عدالتی فیصلے میں کہا گیا تھا کہ مجرمانہ مقدمات میں’ شک و شبہ سے بالاتر ثبوت‘ بنیادی اہمیت کے حامل ہیں اور یہ ان اصولوں میں سے ایک ہے، جس میں ’اس بات کو یقینی بنایا جاتا ہے کہ کسی بے گناہ کو سزا نہیں دی جائے‘۔

آسیہ بی بی کیس

پنجاب کے ضلع شیخوپورہ میں 19 جون 2009 کو ایک واقعہ پیش آیا جس میں آسیہ بی بی نے کھیتوں میں کام کے دوران ایک گلاس میں پانی پیا جس پر ایک خاتون نے اعتراض کیا کہ غیر مسلم ہونے کی وجہ سے آسیہ پانی کے برتن کو ہاتھ نہیں لگا سکتیں، جس پر دونوں میں جھگڑا ہو گیا۔

مزید پڑھیں: سپریم کورٹ نے آسیہ بی بی کو بری کردیا

جھگڑے کے دوران اس خاتون کی جانب سے آسیہ بی بی پر توہین مذہب کا الزام لگایا گیا، جس کے کچھ دنوں بعد خاتون نے ایک مقامی عالم سے رابطہ کرتے ہوئے ان کے سامنے آسیہ کے خلاف توہین مذہب کے الزامات پیش کیے۔

بعد ازاں آسیہ بی بی کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا، جس پر ٹرائل کورٹ نے نومبر 2010 میں توہین مذہب کے الزام میں انہیں سزائے موت سنائی، تاہم ان کے وکلاء اپنی موکلہ کی بے گناہی پر اصرار کررہے تھے اور ان کا موقف تھا کہ الزام لگانے والے آسیہ سے بغض رکھتے تھے۔

خیال رہے کہ پاکستان میں توہین مذہب کے جرم کی سزا موت ہے تاہم انسانی حقوق کی تنظیمیں کہتی ہیں کہ اس قانون کو اکثر ذاتی انتقام لینے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔

بعد ازاں آسیہ بی بی نے ٹرائل کورٹ کے فیصلے کو لاہور ہائیکورٹ میں چیلنج کردیا تھا، تاہم عدالت نے 2014 میں ان کی سزائے موت کا فیصلہ برقرار رکھا تھا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں