سپریم کورٹ آف پاکستان کی جانب سے توہین مذہب کیس میں آسیہ بی بی کی بریت کی بازگشت برطانوی پارلیمنٹ تک پہنچ گئی۔

برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق پاکستانی سپریم کورٹ کا ذکر برطانوی پارلیمنٹ میں بھی ہوا اور وقفہ سوالات کے درمیان برطانوی وزیر اعظم تھریسامے سے اس فیصلے کو تسلیم اور تعریف کرنے سے متعلق سوال پوچھا گیا۔

برطانوی رکن پارلیمنٹ نے وزیر اعظم تھریسامے سے پوچھا کہ ’ کیا وزیر اعظم، پاکستان کے سپریم کورٹ کی جانب سے نوجوان مسیحی خاتون اور 5 بچوں کی والدہ آسیہ بی بی، جنہوں نے محض پانی پینے کے معاملے پر پیدا ہونے والے تنازع میں توہین مذہب کے الزام میں سزائے موت کا سامنا کرتے ہوئے 8 سال جیل میں گزارے، ان کی سزا کالعدم قرار دینے کو خوش آمدید کہیں گی اور کیا وزیر اعظم، پاکستان کے چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی جرأت اور بہادری اور انصاف کی فراہمی قائم کرنے اور آسیہ بی بی کی رہائی سے تمام عقائد کے لیے مذہبی آزادی کے بھیجے گئے پیغام کی تعریف کریں گی؟

مزید پڑھیں: ’آسیہ بی بی کا فیصلہ دینے والے ججز کسی سے کم عاشق رسولﷺ نہیں‘

اس پر برطانوی وزیر اعظم نے جواب دیا کہ ’پاکستان سے آنے والی آسیہ بی بی کی رہائی کی خبر کا ان کے اہل خانہ اور پاکستان سمیت دنیا بھر میں ان کی رہائی کی مہم چلانے والوں کی جانب سے خیر مقدم کیا جانا چاہیے‘۔

انہوں نے کہا کہ ’سزائے موت پر ہمارا ٹھوس مؤقف سب جانتے ہیں اور ہم عالمی سطح پر اس کے خاتمے کا مطالبہ کرتے ہیں‘۔

خیال رہے کہ 31 اکتوبر کو سپریم کورٹ آف پاکستان نے توہین مذہب کیس میں مسیحی خاتون آسیہ بی بی کی سزائے موت کو کالعدم قرار دیتے ہوئے انہیں بری کرنے کا حکم دیا تھا۔

چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے ابتدائی طور پر مختصر فیصلہ پڑھ کر سنایا تھا اور ٹرائل کورٹ اور لاہور ہائیکورٹ کے فیصلے کو کالعدم قرار دیا تھا۔

عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا تھا کہ اگر آسیہ بی بی کسی اور کیس میں مطلوب نہیں ہیں تو انہیں فوری رہا کیا جائے۔

بعد ازاں عدالت کی جانب سے 57 صفحات پر مشتمل تحریری فیصلہ اردو میں جاری کیا تھا، جو چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے تحریر کیا تھا جبکہ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے الگ اضافی نوٹ تحریر کیا تھا۔

عدالت کی جانب سے دیے گئے تحریری فیصلے کا آغاز کلمہ شہادت سے کیا گیا تھا جبکہ اس میں قرآنی آیات اور احادیث کا ترجمہ بھی تحریر کیا گیا تھا

چیف جسٹس نے عدالتی فیصلے میں کہا تھا کہ’ یہ قانون کا ایک بنیادی اصول ہے کہ دعویٰ کرنے والے کو الزامات ثابت کرنے ہوتے ہیں، لہٰذا یہ استغاثہ کی ذمہ داری ہے کہ وہ مقدمے کی سماعت کے دوران شک کے بجائے ملزم پر الزمات ثابت کرے۔

تحریری فیصلے میں کہا گیا تھا کہ’ ملزم کو اس وقت تک بے گناہ تصور کیا جاتا ہے جب تک استغاثہ ٹھوس ثبوت کی بنیاد پر مدعی کی جانب سے ملزم پر لگائے گئے الزمات پرعدالت کو مطمئن کرنے میں کامیاب نہیں ہوتا‘۔

عدالتی فیصلے میں کہا گیا تھا کہ مجرمانہ مقدمات میں’ شک و شبہ سے بالاتر ثبوت‘ بنیادی اہمیت کے حامل ہیں اور یہ ان اصولوں میں سے ایک ہے، جس میں ’اس بات کو یقینی بنایا جاتا ہے کہ کسی بے گناہ کو سزا نہیں دی جائے‘۔

آسیہ بی بی کیس

پنجاب کے ضلع شیخوپورہ میں 19 جون 2009 کو ایک واقعہ پیش آیا جس میں آسیہ بی بی نے کھیتوں میں کام کے دوران ایک گلاس میں پانی پیا جس پر ایک خاتون نے اعتراض کیا کہ غیر مسلم ہونے کی وجہ سے آسیہ پانی کے برتن کو ہاتھ نہیں لگا سکتیں، جس پر دونوں میں جھگڑا ہو گیا۔

جھگڑے کے دوران اس خاتون کی جانب سے آسیہ بی بی پر توہین مذہب کا الزام لگایا گیا، جس کے کچھ دنوں بعد خاتون نے ایک مقامی عالم سے رابطہ کرتے ہوئے ان کے سامنے آسیہ کے خلاف توہین مذہب کے الزامات پیش کیے۔

بعد ازاں آسیہ بی بی کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا، جس پر ٹرائل کورٹ نے نومبر 2010 میں توہین مذہب کے الزام میں انہیں سزائے موت سنائی، تاہم ان کے وکلاء اپنی موکلہ کی بے گناہی پر اصرار کررہے تھے اور ان کا موقف تھا کہ الزام لگانے والے آسیہ سے بغض رکھتے تھے۔

یہ بھی پڑھیں: سپریم کورٹ نے آسیہ بی بی کو بری کردیا

خیال رہے کہ پاکستان میں توہین مذہب کے جرم کی سزا موت ہے تاہم انسانی حقوق کی تنظیمیں کہتی ہیں کہ اس قانون کو اکثر ذاتی انتقام لینے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔

بعد ازاں آسیہ بی بی نے ٹرائل کورٹ کے فیصلے کو لاہور ہائیکورٹ میں چیلنج کردیا تھا، تاہم عدالت نے 2014 میں ان کی سزائے موت کا فیصلہ برقرار رکھا تھا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں