لولو اور نانا سے ملیں، یہ وہ جڑواں بچیاں ہیں جن کے بارے میں ایک چینی سائنسدان کا دعویٰ ہے کہ یہ دنیا کی اولین بچیاں ہیں جن کے جینز کو ٹیم نے تبدیل کیا۔

آسان الفاظ میں یہ دنیا کی پہلی جینیاتی طور پر ایڈٹ بچیاں ہیں، جسے چینی سائنسدان نے طبی میدان میں سنگ میل قرار دیا ہے مگر دنیا بھر کے سائنسدانوں نے اس پر تنقید کی ہے۔

چین کے یونیورسٹی پروفیسر ہی جیان کیوئی نے یوٹیوب پر ایک ویڈیو پوسٹ کرتے ہوئے بتایا کہ چند ہفتے پہلے پیدا ہونے والی جڑواں بچیوں کے ڈی این اے میں انہوں نے ایسی تبدیلیاں کی ہیں جو انہیں مستقبل میں ایچ آئی وی سے تحفظ فراہم کریں گی۔

اس تحقیقی ٹیم میں شامل اسٹینفورڈ یونیورسٹی کے ایک پروفیسر جو چینی شہر شینزن کی لیبارٹری میں اس تجربے میں شامل رہے، کے مطابق اس مقصد کے لیے کرسپر تیکنیک کو استعمال کیا گیا۔

کرسپر تیکنیک انسانی جینز کی ایڈیٹنگ کے لیے استعمال کی جاتی ہے اور سائنسدانوں کو توقع ہے کہ اس کی مدد سے مستقبل میں انسانی زندگی کو بہتر بنانے اور موروثی بیماریوں کو روکنا ممکن ہوسکے گا۔

مزید پڑھیں : ڈی این اے ایڈیٹنگ کے ذریعے زندگی محفوظ بنانا ممکن

ایم آئی ٹی ٹیکنالوجی ریویو میں اس چینی سائنسدان کی تحقیق پر مقالہ شائع ہوا ہے۔

چینی سائنسدان کے مطابق ان بچیوں کی پیدائش آئی وی ایف کے ذریعے ہوئی مگر اس مقصد کے لیے جو بیضے ماں کے رحم میں داخل کیے گئے، ان کے جینز میں تبدیلیاں کی گئیں۔

اس تحقیق کو کرنے والے چینی سائنسدان — اے پی فوٹو
اس تحقیق کو کرنے والے چینی سائنسدان — اے پی فوٹو

سائنسدان نے بتایا 'شوہر کے اسپرم کو بیوی کے بیضے میں داخل کرنے کے بعد کرسپر تیکنیک سے ایک جین سرجری کی گئی تاکہ یہ بچیاں مستقبل میں ایچ آئی وی انفیکشن سے محفوظ رہیں'۔

جیسا اوپر ذکر کیا جاچکا ہے کہ جین ایڈیٹنگ موروثی امراض پر قابو پانے کے لیے کارآمد ثابت ہوسکتی ہے مگر یہ انتہائی متنازع طریقہ کار ہے کیونکہ جینز میں کی جانے والی تبدیلیاں مستقبل کی نسلوں میں منتقل ہوں گی اور پوری نسل اس سے متاثر ہوسکتی ہے۔

ایم آئی ٹی ریویو میں اس ٹیکنالوجی اخلاقی لحاظ سے خطرناک قرار دیا گیا۔

تاہم ابھی تک آزادانہ طور پر چینی سائنسدان کے دعوے کی تصدیق نہیں ہوسکی اور نہ ہی انہوں نے کسی معتبر جریدے میں اسے شائع کرایا ہے۔

چینی اداروں کی تردید

اس تحقیق کو چینی سائنسدانوں اور اداروں نے بھی تنقید کا نشانہ بنایا ہے یہاں تک کہ وہ یونیورسٹی جہاں ہی جیان کیوئی کام کرتے ہیں، کا کہنا ہے کہ یہ محقق فروری سے تعطیلات پر ہیں اور ان کی تحقیق تدریسی اخلاقیات اور اصولوں کی سنگین خلاف ورزی ہے۔

سدرن یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا 'جو تحقیقی کام پروفیسر ہی جیان کیوئی نے کیا ہے وہ ادارے سے باہر کیا ہے'۔

دوسری جانب چین کے 100 سائنسدانوں کے ایک گروپ نے بھی اس تحقیق کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے بہتر ریاستی قوانین کا مطالبہ کیا ہے۔

یہ بھی پڑھیں : خون کے موروثی امراض کا علاج اب ہوگا ممکن؟

ان کی جانب سے جاری سوشل میڈیا پلیٹ فارم ویبو پر جاری بیان میں کہا گیا 'یہ چین کی عالمی ساکھ اور بائیومیڈیکل ریسرچ کے لیے بہت بڑا دھچکا ہے، یہ چینی سائنسدانوں کی اکثریت کے ساتھ بہت زیادہ ناانصافی ہے جو سائنسی تحقیق اور تنوع کے لیے کام کررہے ہیں'۔

دنیا بھر کے سائنسدانوں نے بھی ہی جیان کیوئی کے کام کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا ہے کہ یوٹیوب ویڈیو کو ذریعہ بنانا سائنسی دریافت کے اعلان کا نامناسب طریقہ ہے جبکہ دیگر نے انتباہ کیا کہ اس سے صحت مند جنین اور بچوں کی غیر ذمہ دارانہ جین ایڈیٹنگ کا راستہ کھول جائے گا۔

لندن کالج یونیورسٹی میں جینیات اور ہیومین ایمبریولوجی کے پروفیسر جوائس ہارپر نے کہا کہ ایچ آئی وی سے تحفظ کے لیے انسانی بچیوں کی جین ایڈیٹنگ کی رپورٹ قبل از وقت، خطرناک اور غیرذمہ دارانہ ہے۔

یہ پہلی بار نہیں کہ چینی محققین نے اس ٹیکنالوجی کا انسانوں پر تجربہ کیا ہے، گزشتہ سال سن یات سین یونیورسٹی کی ٹیم نے جین ایڈیٹنگ سے امراض کا باعث بننے والی خامی کو انسانی ایمبریو میں ٹھیک کیا تھا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں