ہم سب اس مرحلے سے گزر چکے ہیں۔ ہم سب جانتے ہیں کہ اپنے بچے کو دوائی کھلانا کتنا مشکل کام ہوسکتا ہے۔ اس کام کے لیے آپ کو انہیں کئی رشوتیں دینی پڑ سکتی ہیں۔ جیسے ہی آپ دوائی کھلانے کے لیے آگے بڑھتے ہیں تو آپ کا بچہ آپ سے دُور بھاگنے لگتا ہے۔

وہ والدین جنہیں روزانہ اپنے بچوں کو دوائیں دینی ہوتی ہیں ان کے لیے یہ مرحلہ ایک مسلسل جنگ کی طرح ہے جس میں والدین روزانہ فتح کی امید لیے میدان میں اترتے ہیں۔

مگر کچھ اہم مسائل بھی شامل ہیں

1: آپ کا بچہ بیمار ہے اور اسے دوائی کی ضرورت ہے

2: دوائی کی بُو ربڑ جیسی ہے اور اس کا ذائقہ پسینے سے بھیگے پیروں جیسا ہوتا ہے (یہ بات میں اپنے تجربے کی بنا پر کہہ رہی ہوں کیونکہ طبی ٹریننگ کے دوران ہمیں تشخیص کی جانے والی تمام دواؤں کو خود چکھنا پڑتا ہے۔)

میں نے ٹیکساس میں خصوصی بچوں کے ایک میڈیکل کیمپ میں کام کرتے ہوئے جانا کہ والدین نے اپنے بچوں کو دوائیں کھلانے کے لیے کافی نت نئے طریقے ایجاد کر رکھے ہیں۔ میں نے کیمپ میں جو ترکیبیں دیکھیں ان میں سے چند درج ذیل ہیں جنہیں آپ بھی استعمال کرسکتے ہیں۔

1: دواؤں کو سیب کی چٹنی یا ونیلا فلیور میں مکس کرکے دینا

2: کیپسول کو سوڈا کے 2 اونس کے ساتھ کھلانا۔

3: ٹیبلٹ کو جوس میں ڈال کر اسٹرا کے ذریعے پلانا

4: کیپسول کھول کر اسٹرا کے اندر چھڑک دینا

5: مائع (لیکوئیڈ) دوائی کو کباب یا پھر ویفل کے اندر ملا دینا

ڈاکٹر اور فارمیسی اکثر اتنے مددگار نہیں ہوتے جتنے کہ ہونے چاہیئں۔ وہ خوش ذائقہ دواؤں کے بجائے بدذائقہ دوائیں تجویز کرتے ہیں، جب مائع دوا فراہم کی جاسکتی ہو تب بھی ٹھوس دوائیں تجویز کرتے ہیں، مگر اکثر اوقات ان کے پاس اور کوئی چارہ بھی نہیں ہوتا۔

خصوصی بچوں کے والدین زیادہ قابلِ تعریف ہیں کیونکہ انہیں روزانہ کی بنیاد پر اس مشکل کام کو سرانجام دینا ہوتا ہے۔ لیکن حوصلہ رکھیں، جب آپ کے بچے بڑے ہوں گے تو آہستہ آہستہ وہ خود کو اس کے مطابق ڈھال لیں گے۔

ضروری نہیں کہ آپ ہر مرتبہ بچوں کو دوائی کھانے پر راضی کرسکیں، کبھی کبھی آپ ناکام بھی ہوں گے۔ کبھی کبھی آپ کو ایسا بھی محسوس ہوگا کہ دوائیں وہ کام نہیں کر رہیں جو ڈاکٹر کے مطابق انہیں کرنا چاہیے۔

مگر اپنے بچوں کو رونے اور جھنجھلانے کے باوجود دوائی کھلانا ایک محبت بھرا کام ہے کیونکہ ہم میں سے کوئی بھی اپنے بچوں کو تکلیف میں نہیں دیکھ سکتا، چنانچہ دوائی دینا ضروری ہوجاتا ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں