آصف زرداری کی ممکنہ گرفتاری، پیپلزپارٹی کی حکمت عملی تیار

اپ ڈیٹ 21 دسمبر 2018
سابق صدر اور شریک چیئرمین پی پی پی آصف علی زرداری—فائل فوٹو
سابق صدر اور شریک چیئرمین پی پی پی آصف علی زرداری—فائل فوٹو

سابق صدر اور پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری کی ممکنہ گرفتاری کے معاملے پر ان کی جماعت نے حکمت عملی تیار کرلی۔

ذرائع کے مطابق پیپلز پارٹی نے آصف علی زرداری کی بینکنگ عدالت میں پیشی سے متعلق حکمت عملی تیار کرتے ہوئے تمام ارکان پارلیمنٹ کو کراچی طلب کرلیا۔

ذرائع کا کہنا تھا کہ حکمت عملی کے تحت تمام ارکان پارلیمنٹ، ارکان صوبائی اسمبلی اور کارکنان کو کل(جمعہ) کو بینکنگ عدالت پہنچنے کی ہدایت کی گئی ہے۔

پیپلز پارٹی نے ہدایت کی ہے کہ تمام ارکان آصف علی زرداری کے پیشی کے موقع پر عدالت پہنچیں جبکہ پی پی خواتین ونگ نے بھی تمام عہدیداران کو صبح عدالت میں حاضری یقینی بنانے کی ہدایت کی ہے۔

مزید پڑھیں: جعلی اکاؤنٹس کیس: بلاول بھٹو سے بھی معلومات حاصل کرنے کا فیصلہ

جے آئی ٹی رپورٹ

دوسری جانب جعلی اکاؤنٹس کیس سے متعلق منی لانڈرنگ پر تحقیقات کے لیے قائم مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) کی حتمی رپورٹ مکمل کرلی گئی۔

ذرائع کے مطابق جے آئی ٹی رپورٹ 10 جلد اور 7 ہزار 5سو صفحات پر مشتمل ہے، جسے عدالت عظمیٰ میں پیش کیا جائے گا۔

اس رپورٹ کر ذرائع کا کہنا تھا کہ سابق صدر آصف علی زرداری، ان کی بہن فریال تالپور، اومنی گروپ کے انور مجید، معروف بینکر حسین لوائی، بحریہ ٹاؤن کے چیئرمین ملک ریاض، ان کی اہلیہ و داماد سمیت بڑی تعداد میں بلاول ہاؤس کے ملازمین کے بیانات اور تحقیقات کی روشنی میں انہیں مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

ذرائع کے مطابق رپورٹ میں یہ بات سامنے آئی کہ بیمار صنعتوں کے نام پر اومنی گروپ کی اربوں روپے کی مالی مدد کرنے پر بطور وزیر خزانہ مراد علی شاہ کو مشکلات پیش آسکتی ہیں۔

ذرائع کا کہنا تھا کہ 200 ارب سے روپے سے زائد رقم کی منتقلی کے لیے جعلی اکاؤنٹس کھولنے میں مدد و معاونت کرنے والے بینکز اور ٹھیکیدار بھی ملزمان کی فہرست میں شامل ہیں جبکہ محکمہ خزانہ سمیت مختلف اداروں کے اعلیٰ عہدے داروں سمیت افسران کے خلاف قانونی کارروائی کی سفارش کی گئی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: حکومت کا آصف علی زرداری کے خلاف ریفرنس دائر کرنے کا فیصلہ

ذرائع کے مطابق رپورٹ میں سلطانی گواہان کے بیان بھی شامل کیے گئے ہیں جبکہ منی لانڈرنگ کے ذریعے بیرون ملک خریدی گئیں جائیداد کی تفصیلات بھی شامل کی گئی ہیں۔

جے آئی ٹی رپورٹ کے حوالے سے ذرائع کا کہنا تھا کہ زین ملک اور آصف زرداری کے فزیو مشتاق کے مشترکہ اکاؤنٹ سے 7 ارب روپے منتقل ہوئے جبکہ فریال تالپور کے ڈرائیور علی گوہر کے اکاؤنٹ سے 19 ارب روپے منتقل کیے گئے، اس کے علاوہ ایک موجودہ ایم پی اے نے 40 کروڑ کی رقم منتقل کی۔

ذرائع کے مطابق جے آئی ٹی رپورٹ میں 15کے قریب ٹھیکیداروں کو ملزمان کی فہرست میں شامل کیا گیا ہے جبکہ دو سابق چیف سیکریٹری بھی ملزمان میں شامل ہیں۔

ذرائع کا مزید کہنا تھا کہ رپورٹ میں بتایا گیا کہ بحریہ آئیکون ٹاور فلاحی پلاٹ پر بنایا جارہا ہے اور افسران نے جعل سازی کے ذریعے اس جگہ کو منتقل کیا اور اس سمری کو منظور کرنے والوں میں سابق وزیر اعلیٰ سندھ قائم علی شاہ شامل ہیں۔

کیس کا پس منظر

خیال رہے کہ 2015 کے جعلی اکاؤنٹس اور فرضی لین دین کے مقدمے کے حوالے سے پاکستان پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف زرداری، ان کی بہن فریال تالپور اور ان کے کاروباری شراکت داروں سے تحقیقات کی جارہی ہیں۔

یونائیٹڈ بینک لمیٹیڈ، سندھ بینک اور سمٹ بینک میں موجود ان 29 بے نامی اکاؤنٹس میں موجود رقم کی لاگت ابتدائی طور پر 35ارب روہے بتائی گئی تھی۔

اس سلسلے میں ایف آئی اے نے معروف بینکر حسین لوائی کو گرفتار کیا تھا، جس کے بعد ماہ اگست میں جعلی اکاؤنٹس کیس میں ہی اومنی گروپ کے چیئرمین انور مجید اور ان کے بیٹے عبدالغنی مجید کو بھی گرفتار کر لیا گیا تھا۔

7 ستمبر کو سپریم کورٹ نے سابق صدر مملکت اور ان کی بہن بہن کی جانب سے مبینہ طور پر جعلی اکاؤنٹس کے ذریعے اربوں روپے کی منی لانڈرنگ کیے جانے کے مقدمے کی تحقیقات کے لیے جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم (جے آئی ٹی) تشکیل دے دی تھی۔

مزید پڑھیں: جعلی اکاؤنٹ کیس: جے آئی ٹی کی حسین لوائی اور عبدالغنی مجید سے تفتیش

اس جے آئی ٹی نے سابق صدر آصف علی زرداری، ان کی بہت فریال تالپور سے پوچھ گچھ کی تھی جبکہ چیئرمین پی پی پی بلاول بھٹو سے بھی معلومات حاصل کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔

آصف علی زرداری نے جے آئی ٹی کو بتایا تھا کہ 2008 سے وہ کسی کاروباری سرگرمی میں ملوث نہیں رہے اور صدر مملکت کا عہدہ سنبھالنے کے بعد انہوں نے خود کو تمام کاروبار اور تجارتی سرگرمیوں سے الگ کرلیا تھا۔

علاوہ ازیں 3 رکنی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم نے اڈیالہ جیل میں حسین لوائی اور عبدالغنی مجید سے سے ڈیڑھ گھنٹے سے زائد تفتیش کی تھی۔

تبصرے (0) بند ہیں