اسلام آباد: جعلی بینک اکاؤنٹس کیس میں بحریہ ٹاؤن کے چیئرمین ملک ریاض کے داماد زین ملک اور اومنی گروپ کے سربراہ انور مجید اور ان کے بیٹے عبدالغنی مجید نے اپنا جواب سپریم کورٹ میں جمع کروا دیا۔

عدالت عظمیٰ میں جمع کرائے گئے جواب میں زین ملک نے مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) رپورٹ کے تمام الزامات کو مسترد کردیا۔

جواب میں کہا گیا کہ جے آئی ٹی نے متعلقہ ریکارڈ کا جائزہ لیے بغیر رپورٹ مرتب کی، یہ رپورٹ حقائق کے منافی ہے۔

انہوں نے اپنے جواب میں کہا کہ آئیکون ٹاور کا پلاٹ سندھ ریونیو بورڈ سے پرانی گرانٹ اسکیم کے تحت لیا گیا، یہ پلاٹ 1996 میں 18 لاکھ 78 ہزار کے عوض 99 سالہ لیز پر لیا گیا۔

مزید پڑھیں: جعلی اکاؤنٹس کیس: ای سی ایل میں شامل 172 افراد کی فہرست جاری

جواب میں کہا گیا کہ سندھ حکومت نے ریگولرائزیشن کے لیے جسٹس بروہی کی سربراہی میں کمیٹی قائم کی، کمیٹی نے کہا کہ پلاٹ باغ ابن قاسم کی حدود میں نہیں۔

عدالت میں جمع کرائے گئے جواب میں کہا گیا کہ طے شدہ لیز پر مقررہ رقم سے 46 لاکھ زائد ادا کیے، آئیکون ٹاور پلاٹ سندھ حکومت کی ملکیت تھا، جو بعد میں میونسپل کارپوریشن کو منتقل کیا گیا۔

انہوں نے اپنے جواب میں کہا کہ جے آئی ٹی کا مؤقف محض مفروضات پر مبنی ہے، آصف علی زرداری کا آئیکون ٹاور میں کوئی حصہ نہیں۔

جواب میں کہا گیا کہ بحریہ ٹاؤن زرداری گروپ کے لائنز ایریا پلاٹ پر تعمیرات کر رہا ہے، جے آ ئی ٹی نے لائنز ایریا پلاٹ اور آئیکون پلاٹ تعمیرات کے ریکارڈ کا درست جائزہ نہیں لیا۔

جواب میں مؤقف اپنایا گیا کہ جعلی اکاؤنٹس کی ذمہ داری زین ملک پر نہیں ڈالی جاسکتی، جعلی اکاؤنٹس کو اومنی گروپ دیکھ رہا تھا، بحریہ ٹاؤن اور زین ملک کی اکاؤنٹس میں رقم تو جمع کروائی تاہم اکاؤنس جعلی ہیں اس بارے میں معلومات نہیں تھیِ۔

عدالت میں جمع جواب میں کہا گیا کہ جے آئی ٹی نے قرار دیا کہ مسٹر ڈنشا آصف زرداری کے فرنٹ مین ہیں جو کہ حقائق کے منافی ہے۔

انور اور عبدالغنی مجید کی جے آئی ٹی رپورٹ مسترد کرنے کی استدعا

دوسری جانب اومنی گروپ کے انور مجید اور عبدالغنی مجید نے اپنے جواب میں خود کو معصوم قرار دے دیا۔

سپریم کورٹ میں جمع کرائے گئے جواب میں دونوں ملزمان نے جے آئی ٹی رپورٹ مسترد کرنے کی استدعا کی۔

جواب میں موقف اپنایا گیا کہ جے آئی ٹی کے پاس کوئی بنیاد نہیں کہ وہ معاملہ نیب کو ارسال کرنے کی سفارش کرتی، جے آئی ٹی کی کسی بھی سفارش کی منظوری دینا بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہوگی۔

یہ بھی پڑھیں: جعلی اکاؤنٹس کیس: 107 اکاؤنٹس سے 54 ارب کی ٹرانزیکشنز کا انکشاف

عدالت میں جمع کرائے گئے جواب میں کہا گیا کہ جے آئی ٹی کی ایگزیکٹو سمری اور حتمی رپورٹ کی 4 جلد فراہم کی گئیں، جن 924 لوگوں کے بیان ریکارڈ کیے گئے وہ نام فراہم نہیں کیے گئے، اس کے علاوہ جس ریکارڈ کا جائزہ لیا گیا وہ بھی فراہم نہیں کیا گیا۔

جواب کے مطابق ان حالات میں جے آئی ٹی رپورٹ پر مفصل جواب دینے سے قاصر ہیں، رپورٹ کے ساتھ کوئی مواد یا دستاویزات نہیں جو الزامات کی تائید کرے۔

ملزمان نے کہا کہ جے آئی ٹی رپورٹ میں لگائے گئے ہر الزام میں وہ معصوم ہیں۔

خیال رہے کہ سپریم کورٹ میں دائر جعلی اکاؤنٹس کیس میں جے آئی ٹی نے اپنی رپورٹ جمع کرائی تھی، جس میں آصف زرداری، فریال تالپور، ملک ریاض، زین ملک سمیت 172 افراد کے نام شامل تھے۔

اس رپورٹ کے جمع کرانے کے بعد وفاقی حکومت کی جانب سے آصف زرداری سمیت 172 افراد کے نام ای سی ایل میں ڈالنے کا فیصلہ کیا گیا تھا اور ان تمام افراد کی فہرست جاری کردی گئی تھی۔

کیس کا پس منظر

خیال رہے کہ 2015 کے جعلی اکاؤنٹس اور فرضی لین دین کے مقدمے کے حوالے سے پاکستان پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف زرداری، ان کی بہن فریال تالپور اور ان کے کاروباری شراکت داروں سے تحقیقات کی جارہی ہیں۔

یونائیٹڈ بینک لمیٹیڈ، سندھ بینک اور سمٹ بینک میں موجود ان 29 بے نامی اکاؤنٹس میں موجود رقم کی لاگت ابتدائی طور پر 35ارب روہے بتائی گئی تھی۔

اس سلسلے میں ایف آئی اے نے معروف بینکر حسین لوائی کو گرفتار کیا تھا، جس کے بعد ماہ اگست میں جعلی اکاؤنٹس کیس میں ہی اومنی گروپ کے چیئرمین انور مجید اور ان کے بیٹے عبدالغنی مجید کو بھی گرفتار کر لیا گیا تھا۔

7 ستمبر کو سپریم کورٹ نے سابق صدر مملکت اور ان کی بہن بہن کی جانب سے مبینہ طور پر جعلی اکاؤنٹس کے ذریعے اربوں روپے کی منی لانڈرنگ کیے جانے کے مقدمے کی تحقیقات کے لیے جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم (جے آئی ٹی) تشکیل دے دی تھی۔

مزید پڑھیں: جعلی اکاؤنٹ کیس: ملک ریاض پیر کو سپریم کورٹ میں پیش ہوں گے

اس جے آئی ٹی نے سابق صدر آصف علی زرداری، ان کی بہت فریال تالپور سے پوچھ گچھ کی تھی جبکہ چیئرمین پی پی پی بلاول بھٹو سے بھی معلومات حاصل کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔

آصف علی زرداری نے جے آئی ٹی کو بتایا تھا کہ 2008 سے وہ کسی کاروباری سرگرمی میں ملوث نہیں رہے اور صدر مملکت کا عہدہ سنبھالنے کے بعد انہوں نے خود کو تمام کاروبار اور تجارتی سرگرمیوں سے الگ کرلیا تھا۔

علاوہ ازیں 3 رکنی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم نے اڈیالہ جیل میں حسین لوائی اور عبدالغنی مجید سے سے ڈیڑھ گھنٹے سے زائد تفتیش کی تھی۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں