سپریم کورٹ: وزیر اعلیٰ سندھ کی نااہلی سے متعلق درخواست خارج

اپ ڈیٹ 23 جنوری 2019
صرف سیاسی حریف ہونا کسی کی نیک نیتی ظاہر نہیں کرتی—فائل فوٹو
صرف سیاسی حریف ہونا کسی کی نیک نیتی ظاہر نہیں کرتی—فائل فوٹو

اسلام آباد: سپریم کورٹ آف پاکستان نے وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ کی نااہلی سے متعلق درخواست خارج کرتے ہوئے ریمارکس دیے کہ صرف سیاسی حریف ہونا کسی کی نیک نیتی ظاہر نہیں کرتی۔

عدالت عظمیٰ میں جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی 3 رکنی بینچ نے سندھ یونائیٹڈ پارٹی کے روشن علی بریرو کی جانب سے دوہری شہریت اور اقامے پر وزیر اعلیٰ سندھ کی نااہلی کے لیے دائر درخواست پر سماعت کی۔

سماعت کے دوران عدالت نے ریمارکس دیے کہ درخواست گزار نے عام انتخابات 2008، ضمنی انتخابت 2013 اور عام انتخابات 2018 میں وزیر اعلیٰ کے کاغذات نامزدگی پر اعتراضات اٹھائے، جبکہ 18 جولائی 2013 میں مراد علی شاہ کو شہریت منسوخی سے متعلق سرٹیفکیٹ جاری ہوا۔

مزیدپڑھیں: پکڑ دھکڑ جاری رہی تو وزارت عظمیٰ نہیں رہے گی، مراد علی شاہ

عدالت نے ریمارکس دیے کہ مراد علی شاہ کی نااہلی کی درخواست الیکشن کمیشن پاکستان (ای سی پی) کے ریٹرننگ آفیسر نے مسترد کردی تھی جبکہ درخواست گزار نے ریٹرننگ افسر کے حکم کو قانونی فورم پر چیلنج نہیں کیا بلکہ براہ راست ہائیکورٹ میں درخواست دائر کردی۔

سپریم کورٹ نے کہا کہ درخواست گزار مراد علی شاہ کا سیاسی حریف ہے، صرف سیاسی حریف ہونا کسی کی نیک نیتی ظاہر نہیں کرتا، معاملے میں ہائیکورٹ کی جانب سے درخواست مسترد کرنا بالکل درست ہے۔

دوران سماعت جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیے کہ فورم موجود ہونے کے باوجود براہ راست ہائیکورٹ میں درخواست دائر کیوں کی گئی، ایسا نہیں کہ اچانک کسی کو عہدے سے ہٹانے کی درخواست دائر کردی جائے۔

انہوں نے ریمارکس دیے کہ ہرکوئی عہدیداران کو ہٹانے کی درخواست براہ راست سپر یم کورٹ ہائیکورٹ میں لے آ تا ہے جبکہ دیگر قانونی فورمز موجود ہیں، درخواست گزار کو ان فورمز کا استعمال کرنا چاہیے۔

اس دوران جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ کسی کو عہدے سے ہٹانے کی درخواست میں نیک نیتی ظاہر کرنا ہوتی ہے، صرف سیاسی مخالفت کی بنیاد پرعہدے سے ہٹانے کی درخواست سنی نہیں جا سکتی۔

سماعت کے دوران جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیے کہ نئے قانون میں تو ہر شخص قانونی فورمز پر درخواست دے سکتا ہے، ایک حلقے میں 50 ہزار بندے ہوتے ہیں، خود نہ سہی کسی ووٹر کے ذریعے درخواست فورم پر دلوائی جا سکتی تھی، پارلیمنٹ نے کامیاب رکن اسمبلی پر اعتراض اٹھانے کا اختیار بہت وسیع کردیا ہے، سیاسی مخالفت تسلیم کرتے ہیں تو قانونی فورمز بھی استعمال کرنا تھے۔

اس پر وکیل حامد خان نے کہا کہ سیاسی مخالفت کے بھی حقوق ہوتے ہیں، جس پر جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ آپ نے مراد علی شاہ کی اہلیت سیاسی محرکات پر چیلنج کی ہے، بادی النظر میں اس کیس میں نااہلی واضح نہیں، درخواست گزار کو وجوہات کی بنا پر اپنا کیس ثابت کرنا ہو گا۔

یہ بھی پڑھیں: بلاول، مراد علی شاہ کے نام 'ای سی ایل' سے نکال دیئے جائیں، سپریم کورٹ

جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ مراد علی شاہ 18 جولائی 2013 کو شہریت چھوڑ چکے تھے، پہلی نااہلی دوہری شہریت کی بنا پر تھی، دوہری شہریت چھوڑنے کے بعد نااہلی ختم ہوگئی تھی، اس پر وکیل حامد خان نے کہا کہ ریٹرننگ افسر نے مراد علی شاہ پر 62 ون ایف لگایا، اس پر عدالت نے ریمارکس دیے کہ الیکشن ٹریبونل نے 62 ون ایف سے متعلق بات نہیں کی۔

عدالت نے ریمارکس دیے کہ درخواست گزار کے وکیل عدالت کو مطمئن کرنے میں ناکام رہے، درخواست گزار مراد علی شاہ کے سیاسی مخالف ہے اور اس سے قبل بھی نااہلی کی درخواست دے چکے ہیں، تاہم ہائی کورٹ میں یہ درخواست قابل سماعت نہیں ہوئی تھی۔

بعد ازاں عدالت نے مراد علی شاہ کی نااہلی سے متعلق روشن علی بریرو کی درخواست مسترد کردی۔

تبصرے (0) بند ہیں