سپریم کورٹ: کراچی میں 444 قتل کی تحقیقات کے لیے کمیشن کے قیام کی درخواست

اپ ڈیٹ 21 فروری 2019
سماجی رہنماؤں کی جانب سے راؤ انوار اور اس کی ٹیم کی جانب سے کیے گئے ’انکاؤنٹرز‘ کے خلاف مشترکہ پٹیشن دائر کی گئی۔ — فائل فوٹو/راؤ انوار
سماجی رہنماؤں کی جانب سے راؤ انوار اور اس کی ٹیم کی جانب سے کیے گئے ’انکاؤنٹرز‘ کے خلاف مشترکہ پٹیشن دائر کی گئی۔ — فائل فوٹو/راؤ انوار

اسلام آباد: سماجی رہنماؤں کی جانب سے سپریم کورٹ میں کراچی کے سابق سپرنٹنڈنٹ آف پولیس راؤ انوار کے زیر نگرانی 444 ماورائے عدالت قتل کی تحقیقات کے لیے وسیع اور خودمختار کمیشن بنانے کی درخواست دائر کردی گئی۔

سینیئر وکیل فیصل صدیقی کی جانب سے نقیب اللہ محسود کے والد محمد خان، محمد جبران ناصر، جمشید رضا محمود، ناظم فدا حسین حاجی اور عقیلہ اسمعٰیل کی جانب سے سابق ایس ایس پی راؤ انوار اور ان کے پولیس افسران کے گروہ کی جانب سے 444 مبینہ ماورائے عدالت قتل کی تحقیقات کے لیے مشترکہ پٹیشن دائر کی گئی جس میں انہوں نے سندھ حکومت اور سندھ کے انسپکٹر جنرل کی جانب سے ملک کے شہریوں کے آئینی و بنیادی حقوق کی خلاف ورزی پر فیصلہ کرنے کا کہا۔

واضح رہے کہ ایس ایس پی راؤ انوار کا نام جنوبی وزیرستان سے تعلق رکھنے والے 27 سالہ نقیب اللہ محسود کے قتل کے واقعے کے بعد میڈیا میں سامنے آیا تھا۔

مزید پڑھیں: راؤ انوار کی ای سی ایل سے نام کے اخراج کیلئے نظرثانی درخواست

21 مارچ کو پولیس افسر نے عدالت عظمیٰ کے آگے سرینڈر کیا تھا جس نے ایڈیشنل آئی جی سندھ آفتاب پٹھان کی سربراہی میں 5 رکنی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم بنانے کے علاوہ راؤ انوار کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ میں ڈالنے کے احکامات جاری کیے تھے۔

مشترکہ درخواست میں عدالت سے مبینہ قتل کی تحقیقات کے لیے ہائی کورٹ یا سپریم کورٹ کے جج کی سربراہی میں وسیع اور خودمختار کمیشن بنانے کی استدعا کی گئی۔

درخواست گزاروں نے استدعا کی کہ اس کمیشن میں متعلقہ اور معتبر سول سوسائٹی کے افراد سمیت ماہرین بھی شامل کیے جائیں۔

درخواست میں کہا گیا کہ کمیشن 444 ماورائے عدالت قتل کی تفصیلی انکوائری کرنے کے بعد رپورٹ جمع کرائے کہ یہ انکاؤنٹر قانون کے مطابق اصلی تھے یا نہیں۔

رپورٹ میں ماورائے عدالت قتل غیر قانونی ثابت ہونے پر متعلقہ افسران کے خلاف انتظامی اور پینل کارروائیوں کی بھی وضاحت کی جانی چاہیے۔

کمیشن کو سندھ پولیس افسران کے علاوہ سرکاری ملازمین اور سیاست دانوں کی بھی نشاندہی کی جانی چاہیے جنہوں ایس ایس پی راؤ انوار اور ان کی ٹیم کی جانب سے غیر قانونی ماورائے عدالت کے کیس میں رکاوٹیں ڈالیں۔

کمیشن کو ماورائے عدالت قتل کے متاثرین کو حکومت کی جانب سے معاوضے کا بھی بتانا چاہیے اور معاوضوں کو ملوث پولیس اہلکاروں سے لیا جانا چاہیے۔

کمیشن ایسے اقدامات کی تجویز بھی دے جن سے مستقبل میں ماورائے عدالت قتل کو روکا جاسکے اور یہ کمیشن 3 ماہ میں اپنی رپورٹ پیش کرے۔

درخواست میں عدالت سے صوبائی حکومت اور آئی جی سندھ پولیس کو 444 ماورائے عدالت قتل کے تمام سرکاری ریکارڈ بھی پیش کرنے کا حکم دینے کی استدعا کی گئی۔

اس پٹیشن میں کراچی کے ضلع ملیر میں جولائی 2011 سے جنوری 2018 کے دوران راؤ انوار کے عہدے پر ہوتے ہوئے ہونے والے تمام 444 پولیس انکاؤنٹر کیسز کی سمری پیش کی گئی۔

یہ بھی پڑھیں: نقیب اللہ قتل کیس: راؤ انوار و دیگر پر فرد جرم عائد کرنے کیلئے تاریخ مقرر

پٹیشن میں نشاندہی کی گئی کے سندھ پولیس نے یہ سمری کونسل کو فراہم کی تھی جسے عدالت عظمیٰ میں مختلف کیسز میں پیش کی گئی اور پولیس کی جانب سے اس کی صداقت کا کبھی انکار نہیں کیا گیا۔

پٹیشن میں بتایا گیا کہ ایک درخواست گزار محمد خان راؤ انوار اور اس کے گینگ کے خلاف مختلف فورمز پر کیس لڑ رہے ہیں جس میں انسداد دہشت گردی عدالت، سندھ ہائی کورٹ، سپریم کورٹ اور قومی احتساب ادارہ شامل ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ راؤ انوار کو گرفتار ہوئے 10 ماہ گزر چکے ہیں لیکن ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی گئی ہے۔

پٹیشن کے مطابق 7 فروری کو محمد خان کی جانب سے آئی جی سندھ کو خط لکھا گیا تھا کہ جس میں راؤ انوار اور اس کے گینگ کے خلاف ماورائے عدالت قتل میں ملوث ہونے کی انکوائری کی استدعا کی گئی تھی تاہم تاحال انہیں کوئی جواب موصول نہیں ہوا ہے اور نہ ہی کوئی انکوائری کا آغاز کیا گیا ہے۔

پٹیشن میں موقف اپنایا گیا کہ راؤ انوار اور اس کے گینگ کی جانب سے بڑے پیمانے پر ماورائے عدالت قتل کے متاثرین کے وقار کی خلاف ورزی کی گئی جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ افسران نہایت با اثر ہے۔


یہ خبر ڈان اخبار میں 21 فروری 2019 کو شائع ہوئی

تبصرے (0) بند ہیں