دنیا کی سب سے بڑی مکھی 38 سال بعد دوبارہ دریافت

21 فروری 2019
مکھی کی لمبائی 4 سینٹی میٹر ہے — فوٹو: کلے بولٹ
مکھی کی لمبائی 4 سینٹی میٹر ہے — فوٹو: کلے بولٹ

شہد کی مکھی سے 4 گُنا زیادہ حجم رکھنے والی دنیا کی سب سے بڑی مکھی کو 38 سال بعد انڈونیشیا کے جزیرے سے ایک مرتبہ پھر دریافت کرلیا گیا۔

دی گارجین کی رپورٹ کے مطابق جنوبی امریکا اور آسٹریلیا کے ماہرین پر مشتمل سرچ ٹیم کو مادہ ویلس جائنٹ بی (میگا چائل پلوٹو) ایک درخت میں زمین سے 2 میٹر کی اونچائی پر بنے دیمک کے گھر سے ملی۔

خصوصی فوٹوگرافر کلے بولٹ کا کہنا تھا کہ ’ حشرات کے ’ فلائنگ بل ڈاگ‘کو دیکھنا واقعی حیران کن تھا جس سے متعلق ہم سمجھ رہے تھے کہ اب یہ دنیا میں موجود نہیں ‘۔

دنیا کی سب سے بڑی اس مادہ مکھی کی لمبائی 4 سینٹی میٹر ہے، اسے پہلی مرتبہ 1858 میں انڈونیشیا کے جزیرے باکان سے برطانوی شخص الفریڈ رسل ویلس نے دریافت کیا تھا۔

مزید پڑھیں: شہد کی مکھی کے ڈنک کے اثر سے بچانے والے گھریلو ٹوٹکے

انہوں نے اس مادہ مکھی کو ’ ایک بڑا، سیاہ بھڑ نما کیڑا قرار دیا تھا جس کے جبڑے اسٹیگ بیٹل (ایک کیڑا) جیسے ہیں‘۔

اپنے بڑے حجم کے باوجود یہ مکھی فریب دینے میں کامیاب رہی کہ اب تک اس کی زندگی کے ادوار سے متعلق کچھ بھی علم نہیں جس میں دیمک کی طرح درخت کی گوند میں گھر بنانا شامل ہیں۔

— فوٹو: کلے بولٹ
— فوٹو: کلے بولٹ

اس مکھی کو دوسری مرتبہ 1981 میں امریکی ماہر حشرات ایڈم میسر نے انڈونیشا کے 3 جزیروں میں دریافت کیا تھا۔

انہوں نے مشاہدہ کیا تھا کہ یہ مکھی اپنے جبڑوں کو دیمک سے پاک گھونسلے کے لیے لکڑی اور گوند جمع کرنے کے لیے استعمال کرتی ہے۔

بعد ازاں سرچ ٹیمیں ایک مرتبہ پھر اس مکھی کی تلاش میں ناکام ہوگئی تھیں لیکن مادہ مکھی کی دوبارہ دریافت سے اس بات کی امید پیدا ہوگئی ہے کہ اس علاقے کے جنگلات میں دنیا کی سب سے بڑی مکھی کی نسل اب بھی موجود ہے۔

اس مکھی کا مسکن انڈونیشیا میں زراعت کے لیے جنگلات کی شدید کٹائی کے خطرات کا شکار ہے جبکہ اپنے حجم اور دنیا میں نایاب ہونے کی وجہ سے یہ مکھی اپنے شکاریوں کا ایک آسان ہدف بھی رہی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: 60 ہزار شہد کی مکھیاں چہرے پر بٹھانے والا نوجوان

تاہم انڈونیشیا میں اب تک ویلس جائنٹ بی کی تجارت کو روکنے سے متعلق کوئی قانون موجود نہیں ہے۔

عالمی جنگلی حیات کے بچاؤ کے لیے کام کرنے والے حیاتیاتی ماہر رابن موور جو ’ دی سرچ فار لوسٹ اسپیشیز ‘ پروگرام بھی کرتے ہیں انہوں نے کہا کہ ’ ہم جانتے ہیں کہ اس مکھی کی دوبارہ دریافت کی خبر اس کی مانگ کے لحاظ سے ایک بہت بڑا خطرہ ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس مکھی کو پکڑنے والے پہلے سے آگاہ کہ وہ یہاں موجود ہے‘۔

رابن مور نے کہا کہ ’ یہ اہم تھا کہ حیاتیاتی بچاؤ کے ماہرین نے انڈونیشیا کی حکومت کو مکھی کی موجودگی سے آگاہ کیا اور اس کی نسل اور اس کے مقام کی حفاظت کے لیے اقدامات کیے۔

انہوں نے کہا کہ ’ اس مکھی کو دنیا میں حیاتیاتی طور پر محفوظ بنانے سے متعلق ہم پر امید ہیں کہ اس کی نسل کا مستقبل روشن ہے کہ اگر ہم اسے گمنامی میں پکڑے جانے دیتے‘۔

تبصرے (0) بند ہیں