وینزویلا: صدر کا انٹرویو کرنے والی امریکی نشریاتی ادارے کی ٹیم گرفتار

26 فروری 2019
جارج راموس کو نکولس مدورو کو ویڈیوز دکھانے کے بعد گرفتار کیا گیا — فوٹو: اے پی
جارج راموس کو نکولس مدورو کو ویڈیوز دکھانے کے بعد گرفتار کیا گیا — فوٹو: اے پی

امریکی نشریاتی ادارے ان وژن کا کہنا ہے کہ وینزویلا کے صدارتی محل میں صدر نکولس مدورو کا انٹرویو کرنے والے عملے کو مختصر دورانیے کے لیے گرفتار کیا گیا تھا۔

بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق نشریاتی ادارے نے بتایا کہ یہ حادثہ اس وقت پیش آیا جب ایوارڈ یافتہ صحافی جارج راموس نے نکولس مدورو کو وینزویلا کے شہریوں کی کچرا لے جانے والی گاڑی سے کھانا کھاتے ہوئے کی تصاویر دکھائیں۔

ادارے کے مطابق گرفتاری کے بعد ان کے عملے کے پاس موجود آلات کو بھی قبضے میں لے لیا گیا تھا۔

وینزویلا کے وزیر اطلاعات جارج روڈریگوز نے کہا کہ حکومت نے سیکڑوں صحافیوں کا استقبال کیا تھا لیکن کبھی ’ سستے شوز‘ کی حمایت نہیں کی۔

امریکا میں ہسپانوی زبان کے معروف ٹی وی چینل ان وژن کے مطابق 6 افراد پر مشتمل عملے کو گرفتاری کے 3 گھنٹے بعد رہا کیا گیا تھا لیکن ان کی ریکارڈنگ اور ذاتی سامان واپس نہیں کیا گیا۔

مزید پڑھیں: وینزویلا: امداد روکنے پر اپوزیشن لیڈر کی فوج کو تنبیہ

ان وژن پر بات کرتے ہوئے جارج راموس نے کہا نکولس مدورو کو ’ وینزویلا میں جمہوریت کی کمی، تشدد ،سیاسی قیدیوں اور انسانی بحران سے متعلق کچھ سوالات ناگوار گزرے تھے‘۔

صحافی نے وینزویلا کے دارالحکومت کاراکس میں مرافلوز محل میں کیے گئے انٹرویو سے متعلق بتایا کہ ’ وہ (نکولس مدورو) اٹھ گئے تھے جب میں نے انہیں کچرے دان سے کھانا کھاتے ہوئے نوجوان افراد کی ویڈیوز دکھائیں‘۔

انہوں نے کہا کہ ’ میں نے نکولس مدورو کو بتایا تھا کہ وینزویلا کے لاکھوں افراد اور دنیا بھر کی اکثر حکومتیں انہیں قانونی صدر نہیں مانتی بلکہ آمر حکمران سمجھتی ہیں‘۔

نشریاتی ادارے کے مطابق گرفتاری کے دوران جارج راموس اور ان وژن کی وائس پریذیڈنٹ ماریا مارٹنز کو چند منٹ کے لیے ایک علیحدہ اندھیرے کمرے میں لے جایا گیا تھا۔

برطانوی خبر رساں ایجنسی کی رپورٹس کے مطابق ان وژن کے عملے کو آج (26 فروری کو )وینزویلا سے ڈی پورٹ کیا جائے گا۔

یہ بھی پڑھیں: وینزویلا میں فوج بھیجنے کا آپشن موجود ہے، امریکی صدر

میکسیکو نژاد امریکی صحافی جارج راموس جو سوال کرنے کے منفرد انداز کی وجہ سے شہرت رکھتے ہیں ،انہیں 2015 میں اس وقت کے صدارتی امیدوار نے نیوز کانفرنس سے باہر نکال دیا گیا تھا۔

کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹ کے وسطی اور جنوبی امریکا کے پروگرام کوآرڈینیٹر نتالے ساؤتھ وک نے کہا کہ ’ انٹرویو روک کر اور لاطینی امریکا کے ہائی پروفائل رپورٹر کو سنسر کرکے نکولس مدورو نے پریس کے لیے بنیادی ناپسندیدگی کا مظاہرہ کیا ہے۔

خیال رہے کہ گزشتہ ماہ کاراکس میں کام کرنے والے اکثر مقامی اور غیرملکی صحافیوں کو کچھ دیر کے لیے گرفتار کیا گیا تھا جن میں سے کچھ کو ملک سے ڈی پورٹ بھی کیا گیا۔

واضح رہے کہ وینزویلا میں نکولس مدورو کی حکومت کے مخالف مظاہرے 23 جنوری کو اس وقت شدت اختیار کرگئے جب اپوزیشن لیڈر جووان گوائیڈو نے خود ساختہ طور پر ملک کی صدارت کا دعویٰ کیا تھا۔

جووان گوئیڈو نے وینزویلا کے دارالحکومت کاراکس میں ہزاروں افراد کے سامنے خود کو صدر بتاتے ہوئے کہا تھا کہ نکولس مدورو کی آمریت کے خاتمے کا یہ ہی واحد راستہ ہے، جن کی وجہ سے ملک میں غربت میں اضافہ اور غذا کا بحران بھی آیا۔

انہوں نے پرجوش عوام سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’میں جانتا ہوں اس کے کیا نتائج ہوں گے‘ جس کے بعد وہ فوری طور پر نامعلوم مقام پر چلے گئے۔

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے جوآن گوائیڈو کی حمایت کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’وینزویلا کے عوام نے ہمت کا مظاہرہ کرتے ہوئے مدورو اور اس کے دور حکومت کے خلاف آواز اٹھائی ہے اور آزادی کا مطالبہ کیا ہے‘۔

دوسری جانب وینزویلا کے وزیر دفاع ولادیمیر پادرینو نے اپوزیشن لیڈر جوان گوائیڈو کو خود ساختہ صدر کا دعویٰ کرنے پر بغاوت کا ذمہ دار قرار دیا تھا۔

انہوں نے امریکی صدر کی جانب سے جوآن گوائیڈو کی حمایت کے جواب میں امریکا سے سفارتی تعلقات منقطع کردیے اور امریکی سفیروں کو 72 گھنٹوں میں ملک چھوڑنے کا حکم دیا تھا۔

مزید پڑھیں: وینزویلا کے صدر، اپوزیشن سے مذاکرات پر رضامند

نکولس مدورو جنہیں وینزویلا کی افواج کے ساتھ ساتھ عدلیہ کی حمایت حاصل ہے نے اپنے حامیوں سے مدد طلب کرتے ہوئے خانہ جنگی کے دوران امریکا کی مداخلت یاد دلائی تھی۔

صدارتی محل آنے والے اپنے حامیوں سے خطاب کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ’امریکیوں کا اعتبار نہیں کرو، وہ دوست نہیں اور نہ ہی سچے ہیں، وہ صرف مفاد پرست ہیں اور وینزویلا کے تیل، گیس اور سونے پر قبضہ کرنا چاہتے ہیں‘۔

خیال رہے کہ روس،چین، ترکی،کیوبا نے وینزویلا کے صدر نکولس مدورو کی حمایت کا اعلان جبکہ برازیل، کولمبیا، چلی، پیرو، ارجنٹائن، جرمنی، برطانیہ اور امریکا نے جوآن گوائیڈو کے خود ساختہ صدر بننے کے دعوے کی حمایت کی تھی۔

بعد ازاں نکولس مدورو نےہ امریکی حمایت یافتہ اپوزیشن سے مذاکرات کے لیے تیار ہیں اور انہوں نے قبل از وقت پارلیمانی انتخابات کی حمایت کا اظہار بھی کیا تھا۔

خیال رہے کہ امریکا کی جانب سے وینزویلا کے شہریوں کے لیے امداد بھیجی گئی تھی تاہم نکولس مدورو نے امداد ملک میں آنے کی اجازت نہیں تھی جس پر جووان گوائیڈو نے فوج کو خبردار بھی کیا تھا کہ انسانی بنیادوں پر بھیجی گئی امداد ملک میں آنے سے روکنا ’ انسانیت سوز جرم ‘ ہے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (1) بند ہیں

Talha Feb 26, 2019 05:23pm
America doosron keh muaamlaat mein mudakhlat karna band karey....