لال مسجد کیس: سپریم کورٹ نے لاپتہ بچوں کے حوالے سے تفصیلی رپورٹ طلب کرلی

اپ ڈیٹ 12 مارچ 2019
برگ شہریوں نے عدالت سے فریاد کی تھی کہ ہمیں عمارت اور زمین نہیں بلکہ اپنے بچے دلوایا جائے — فائل فوٹو/ڈان
برگ شہریوں نے عدالت سے فریاد کی تھی کہ ہمیں عمارت اور زمین نہیں بلکہ اپنے بچے دلوایا جائے — فائل فوٹو/ڈان

سپریم کورٹ نے لال مسجد کیس کی سماعت کرتے ہوئے انسپیکٹر جنرل (آئی جی) اسلام آباد کو 4 ہفتوں میں گمشدہ بچوں کے بارے میں تفصیلی رپورٹ پیش کرنے کا حکم دے دیا۔

عدالت عظمیٰ میں لال مسجد کیس کی سماعت جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے کی۔

دوران سماعت 2 عمر رسیدہ بزرگوں نے عدالت سے فریاد کی کہ ہمیں عمارت اور زمین نہیں چاہیے بلکہ ہمیں اپنے بچے چاہیئں۔

ان کا کہنا تھا کہ ہمارے بچے 2007 میں ہونے والے لال مسجد آپریشن کے بعد سے لا پتہ ہیں اور وہ کسی قید میں ہیں، ہماری ان سے ملاقات کروائی جائے۔

مزید پڑھیں: آپ لال مسجد آپریشن کرنے آئے تھے اور فلیٹس پر قبضہ کرلیا، چیف جسٹس

انہوں نے کہا کہ بھارتی جاسوس سے اس کے اہل خانہ کی ملاقات کروائی جاتی ہے لیکن ہمارے بچوں سے ہماری ملاقات نہیں ہوتی۔

عدالت نے بزرگوں کی فریاد پر ایکشن لیتے ہوئے آئی جی اسلام آباد سے چار ہفتوں میں گمشدہ بچوں کے بارے میں عدالت کو تفصیلی رپورٹ پیش کرنے کا حکم دے دیا۔

جسٹس گلزار احمد نے دوران سماعت استفسار کیا کہ لال مسجد کتنے رقبے پر قائم ہوئی اور زمین کس کی ملکیت ہے جس پر ڈپٹی اٹارنی جنرل نے بتایا کہ لال مسجد سرکاری زمین پر قائم ہے۔

لال مسجد کے وکیل طارق اسد نے عدالت کو بتایا کہ وقت کے ساتھ لال مسجد کو توسیع دی گئی ہے۔

جسٹس گلزار کا کہنا تھا کہ مسجد خلاف قانون توسیع کرنے کی بھی اسلام میں ممانعت ہے جس پر طارق اسد نے کہا کہ ایسے سوالات کے جواب دینا میں مناسب نہیں سمجھتا۔

جسٹس گلزار احمد کا کہنا تھا کہ ’طارق اسد صاحب یہ ہی تو اصل بات ہے‘۔

یہ بھی پڑھیں: لال مسجد کا ‘مسمار جامعہِ حفصہ’ کے پلاٹ پر حق ملکیت کا دعویٰ

ان کا کہنا تھا کہ لال مسجد میں کتنے افراد مارے گئے یہ الگ بات ہے، لال مسجد کمیشن رپورٹ آ گئی اب ہم کیا کریں، اگر کوئی فوجداری کارروائی بنتی ہے تو متعلقہ فورم پر ہوگی۔

لال مسجد کے وکیل کا کہنا تھا کہ عدالت کچھ نہیں کر سکتی تو کیس بند کر دے جس پر جسٹس گلزار نے استفسار کیا کہ ’آپ کو معاونت کا کہیں تو کہتے ہیں جواب دینا مناسب نہیں‘۔

بعد ازاں عدالت نے سماعت میں وقفہ دیا جس کے بعد چیف کمشنر اسلام آباد اور قائم مقام چیئرمین کیپیٹل ڈیولپمنٹ اتھارٹی عامر علی احمد پیش ہوئے۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے استفسار کیا کہ مسجد تعمیر کس نے کی تھی اور موذن کو کس نے بھرتی کیا جس پر چیف کمشنر اسلام آباد نے بتایا کہ یہ مسجد سی ڈی اے نے تعمیر کی تھی اور مولانا عبداللہ کو موذن متروکہ وقف املاک نے تعینات کیا تھا، بعد ازاں مولانا عبداللہ کے انتقال کے بعد ان کے بیٹے مولانا عبدالعزیز کو موذن مقرر کیا گیا۔

جسٹس گلزار کا کہنا تھا کہ اس کا مطلب ہے مولانا عبدالعزیز سرکاری ملازم تھے۔

چیف کمشنر نے عدالت کو بتایا کہ مولانا عبدالعزیز کو 2004 میں عہدے سے ہٹا دیا گیا تھا تاہم انہوں نے برطرف کیے جانے کے باوجود مسجد کے انتظامات اپنے پاس ہی رکھے۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے استفسار کیا کہ ’آپ کیا کہنا چاہتے ہیں کہ وفاقی دارالحکومت میں قائم ایک مسجد کو حکومت خالی نہ کرا سکی‘۔

چیف کمشنر نے بتایا کہ2007 کے آپریشن کے دوران جامعہ حفصہ کی عمارت تباہ ہوگئی تھی بعد ازاں سپریم کورٹ کی ہدایات کے مطابق 2011 میں اسلام آباد کے سیکٹر ایچ الیون میں 20 کنال اراضی جامعہ حفصہ کو دی گئی۔

مزید پڑھیں: مولانا عبدالعزیز کو لال مسجد میں اجتماع کرنے سے روک دیا گیا

جسٹس گلزار احمد نے استفسار کیا کہ ’آپ کا کیا مطلب ہے سی ڈی اے نے سرکاری اراضی نجی ادارے کے نام کر دی، عدالت نے آپکو عمارت تعمیر کرنے کا کہا تھا کسی کو دینے کا نہیں‘۔

ان کا کہنا تھا کہ یہ سی ڈی اے کی ملکیت تھی کسی اور کو کیسے دے سکتے ہیں۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ ’چیف کمشنر صاحب بے شک عارضی طور پر جگہ کا استعمال کیا جاسکتا ہے مگر ملکیت آپ کی ہی رہے گی۔

ان کا کہنا تھا کہ عدالتی فیصلہ دوبارہ پڑھیں اور عدالت کو تفصیلات سے آگاہ کریں۔

جسٹس گلزار نے استفسار کیا کہ سرکاری اراضی پر کسی نجی ادارے کو چلانے کی اجازت نہیں، اگر نجی ادارے چلانے ہیں تو جگہ خرید کر چلائیں۔

عدالت نے استفسار کیا کہ جامعہ حفصہ کو الاٹ کی گئی 20 کنال اراضی کی تفصیلات سے آگاہ کیا جائے۔

عدالت نے چیئرمین سی ڈی اے کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ’بتائیں مسجد کب بنی، رقبہ کتنا ہے اور اسے کون چلا رہا ہے‘۔

چیئرمین سی ڈی اے نے عدالت کو بتایا کہ ’1970 میں سی ڈی اے نے 9 ہزار 533 گز زمین الاٹ کی، 1988 میں مدرسہ حفصہ کے لیے 206 گز زمین دی گئی۔

عدالت نے چیئرمین سی ڈی اے سے تفصیلی رپورٹ طلب کرتے ہوئے کیس کی سماعت ایک ماہ کے لیے ملتوی کردی۔

لال مسجد کے وکیل طارق اسد نے عدالت میں احتجاج کرتے ہوئے کہا کہ عدالت میری بات سن ہی نہیں رہی، احکامات یک طرفہ سماعت کر کے جاری کیے گئے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ’گزشتہ سماعت پر میرا آپ سے اختلاف ہوا تھا اس لیے مجھے آپ نہیں سن رہے، آپ یہ مقدمہ چیف جسٹس کی عدالت میں بھجوائیں‘۔

چیف جسٹس نے طارق اسد کو ہدایت کی کہ ’ہم نے سماعت ملتوی کر دی ہے آپ چیف جسٹس کو درخواست دے کر مقدمہ جس عدالت میں چاہیں لگوا لیں‘۔

تبصرے (0) بند ہیں