’ایسا پہلی بار ہوا جب مجھے آپریشن تھیٹر تک دوڑ کر پہنچنا پڑا‘

اپ ڈیٹ 20 مارچ 2019
ادیب خنافر خوفناک واقعے کے بارے میں بات کرتے ہوئے—فوٹو:نیوزی لینڈ ہیرالڈ/ایلن گبسن
ادیب خنافر خوفناک واقعے کے بارے میں بات کرتے ہوئے—فوٹو:نیوزی لینڈ ہیرالڈ/ایلن گبسن

ادیب خنافر کو اس سے قبل کسی سرجری کے لیے اس طرح دوڑ کر نہیں جانا پڑا جس طرح انہیں جمعے کو موصول ہونے والے ایک پیغام کے بعد جانا پڑا۔

کرائسٹ چرچ ہسپتال میں شریانوں کے سرجن کی حیثیت سے فرائض انجام دینے والے ادیب کو جس طرح آنے کے لیے کہا گیا اس سے انہیں محسوس ہوا کہ صورتحال کچھ مختلف ہے۔

نیوزی لینڈ ہیرالڈ سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ ’وہ ایک بالکل مختلف کال تھی جس میں کہا گیا تھا کہ ’فوراً آئیں‘، ’آپ کہاں ہیں‘، ’کتنی دور ہیں‘ ۔

یہ بھی پڑھیں: نیوزی لینڈ مساجد حملہ: اگر بنگلہ دیشی ٹیم 4 منٹ پہلے مسجد پہنچ جاتی تو!

انہوں نے بتایا کہ ایسا پہلی بار ہوا جب مجھے آپریشن تھیٹر تک دوڑ کر پہنچنا پڑا۔

ادیب خنافر کے مطابق جب وہ آپریشن تھیٹر میں پہنچے تو جو منظر انہوں نے دیکھا وہ کبھی زندگی میں بھلا نہیں سکیں گے۔

ڈاکٹر ادیب نے بتایا کہ ان کے سامنے ایک 4 سالہ بچی گولی لگنے کے بعد اپنی زندگی کے لیے جدو جہد کررہی تھی جس کی سرجری گزشتہ 45 منٹ سے جاری تھی لیکن شریانوں کو پہنچنے والے نقصان کے سبب انہیں میری ضرورت پڑی۔

اتنا کہتے ہوئے وہ اپنے جذبات پر قابو نہ رکھ سکے اور روہانسو ہوگئے، آنسو پونچھ کر انہوں نے بتایا کہ ان کے 7 سے 14 برس کی عمر کے 4 بچے ہیں۔

مزید پڑھیں: نیوزی لینڈ کی 2 مساجد میں دہشت گرد حملے، 50 افراد جاں بحق

ادیب خنافر نے رائل کالج آف سرجنز آف انگلینڈ سے تعلیم حاصل کی جس کے بعد لاتعداد مریضوں کے آپریشن کیے لیکن انہیں کبھی کسی بچے کا آپریشن نہیں کرنا پڑا۔

انہوں نے بتایا کہ میرے پورے کیرئر میں سب سے کم عمر مریض کی عمر 30 سال تھی ورنہ 90 فیصد مریض عموماً 60 سال سے زائد عمر کے ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ سرجری کے دوران انہیں بار بار اپنی اہلیہ، بچوں اور ہونے والے سانحے کا خیال آتا رہا۔

انہیں یہ خیال بھی آیا کہ اس بچے کی جگہ میری بیٹی یا بیٹا بھی ہوسکتا تھا، تاہم انہوں نے اپنے جذبات ایک طرف رکھ کر اپنی ذمہ داری ادا کی۔

یہ بھی پڑھیں: نیوزی لینڈ: مساجد میں دہشتگردی، حملہ آور کی سفاکیت کا مکمل احوال

جس وقت سرجری مکمل ہوئی اور میں نے سرجن گاؤن اتارا تو منظر بالکل تبدیل ہوگیا، میں تھیٹر سے باہر آیا اور زار و قطار رو دیا۔

بعدازاں انہوں نے اپنے اہلِ خانہ کو فون کر کے ان کی خیریت معلوم کی اور پھر بچی کے والد سے ملے جو خود بھی زخمی تھے اور ان کی ڈھارس بندھائی۔

انہوں نے کہا’ دیکھیں، ہم نے اپنا کام کردیا اب سب پروردگار پر منحصر ہے‘، انہوں نے بتایا کہ بچی کی صحت کے حوالے سے وہ خاصے پر امید ہیں۔

ادیب خنافر کے مطابق وہ کویت میں پیدا ہوئے اور اور برطانوی نژاد ہیں, کرائسٹ چرچ میں ہونے والے ہولناک حملے نے ان کے بچوں پر بھی بہت گہرا اثر ڈالا۔

مزید پڑھیں: 'ہمیں مساجد میں جانے سے کوئی نہیں روک سکتا'

ادیب خنافر نے بتایا کہ ’میری 13 سالہ بیٹی چاہتی ہے کہ اس کی والدہ حجاب لینا ترک کردیں کیوں اسے خوف ہے کہ انہیں کوئی نشانہ نہ بنادے‘۔

تاہم انہوں نے اپنے اہلِ خانہ کو یقین دلایا کہ ہم اس شہر میں اب بھی محفوظ ہیں۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں