الطاف حسین کی تقریر کی تحقیقات کیلئے لندن پولیس گواہوں کے انٹرویو کرے گی

اپ ڈیٹ 08 اپريل 2019
میٹروپولیٹن پولیس 22 اگست 2016 کی الطاف حسین کی  تقریر کی تحقیقات کر رہی ہے —فائل فوٹو: اے ایف پی
میٹروپولیٹن پولیس 22 اگست 2016 کی الطاف حسین کی تقریر کی تحقیقات کر رہی ہے —فائل فوٹو: اے ایف پی

راولپنڈی: لندن میٹرو پولیٹن پولیس کی ٹیم متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) کے بانی الطاف حسین کی 2016 کی تقریر کی تحقیقات کے لیے اسلام آباد پہنچی، جہاں وہ اہم عینی گواہوں کے انٹرویو کرکے ثبوت حاصل کرے گی۔

ذرائع کا کہنا تھا کہ پولیس کی انسداد دہشت گردی کمانڈ (ایس او 15) اسلام آباد میں وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کے ہیڈکوارٹرز میں گواہوں سے انٹرویو کا آغاز کرے گی۔

اس سلسلے میں تمام 6 پولیس اہلکاروں کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ ایف آئی اے کے انسداد دہشت گردی ونگ پہنچیں تاکہ پراسیکیوٹر کی جانب سے گواہوں کو بریف کیا جاسکے۔

مزید پڑھیں: الطاف حسین کے خلاف منی لانڈرنگ کیس اسلام آباد منتقل کرنے کا فیصلہ

ذرائع کا کہنا تھا کہ میٹرو پولیٹن پولیس 22 اگست 2016 کی الطاف حسین کی اس تقریر کی تحقیقات کر رہی ہے، جس سے عوام مشتعل ہوئے تھے اور علاقے میں میڈیا ہاؤسز پر حملہ کیا تھا۔

الطاف حسین کی تقریر کی وجہ سے مبینہ طور پر تشدد کو بڑھاوا ملا اور پولیس افسران پر تشدد سمیت گاڑیوں کو بھی نذر آتش کیا گیا۔

بعد ازاں اس وقت کے وزیر داخلہ نے برطانوی انتظامیہ سے مدد طلب کی تھی اور کہا تھا کہ ’پاکستان کے لوگوں کو تشدد پر اکسانے‘ کے لیے الطاف حسین کے خلاف کارروائی کی جائے۔

پولیس ٹیم کا مقصد ان واقعات سے جڑے اہم گواہوں سے تحریری گواہی کو ثبوت کے طور پر حاصل کرنا ہے، جو 22 اگست 2016 کو رونما ہوئے تھے، بعد ازاں ان ثبوتوں کو مقدمے میں پیش کرنے کے استعمال کیا جائے گا اور اس بات کو یقینی بنایا جائے گا کہ برطانوی عدالتوں میں پروسیکیوشن کے پاس کافی مواد موجود ہے۔

اس حوالے سے پولیس کے سامنے جن گواہوں کو پیش ہونے کا کہا گیا ہے کہ ان میں سینئر سپرنٹنڈنٹ پولیس (ایس ایس پی) شرقی کراچی کے دفتر میں سب انسپیکٹر عبدالغفار، ایس ایس پی انویسٹی گیشن دفتر جنوبی 1 کراچی سے انسپیکٹر حمید خان، ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ پولیس (ڈی ایس پی) صدر کنور آصف، اسٹیشن ہاؤس آفیسر (ایس ایچ او) صدر انسپیکٹر پیر شبیر حیدر، صدر پولیس کانسٹیبل راؤ راشد اور آرٹلری میدان تھانے کے کانسٹیبل قمر زمان شامل ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: بانی ایم کیو ایم اشتعال انگیز تقریر: ڈی آئی جی کے خلاف وارنٹ جاری

تمام پولیس حکام کو یہ ہدایت کی گئی کہ وہ 22 اگست 2016 کے واقعات کی تصدیق شدہ سی سی ٹی وی اور ویڈیو کی نقل لائیں۔

اس کے علاوہ انہیں تمام واقعے کی تصاویر اور ان گواہوں کے بیانات پیش کرنے کا کہا گیا ہے، جنہوں نے یہ تصاویر لی تھیں۔

علاوہ ازیں کراچی پولیس حکام کو یہ بھی ہدایت دی گئی ہے کہ وہ پاکستان میں اس معاملے کی تحقیقات سے متعلق گواہوں کے بیانات، ملزمان کے ساتھ پولیس انٹریوں کی ریکارڈنگ یا ٹرانسکرپٹ، میڈیکل نوٹس، زخمیوں کی تصاویر اور دیگر متعلقہ مواد ساتھ لائیں۔

ایک سینئر پولیس عہدیدار کے مطابق اگست 2016 میں صدر سرکل میں تعینات پولیس حکام کو اسلام آباد بلایا گیا تاکہ وہ برطانوی ٹیم کے سامنے پیش ہوسکیں۔


یہ خبر 08 اپریل 2019 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی

تبصرے (0) بند ہیں