پی ٹی ایم 'پاکستان کے ایجنڈے' پر عمل کرے تو مذاکرات ممکن ہیں، وفاقی وزرا

اپ ڈیٹ 01 اکتوبر 2019
پی ٹی ایم رہنما محسن داوڑ اور علی وزیر کو چیک پوسٹ حملے کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا—فائل فوٹو: رائٹرز
پی ٹی ایم رہنما محسن داوڑ اور علی وزیر کو چیک پوسٹ حملے کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا—فائل فوٹو: رائٹرز

اسلام آباد: قومی اسمبلی کے اجلاس کے دوران قبائلی علاقوں سے آزاد اراکین اسمبلی اور پشتون تحفظ موومنٹ (پی ٹی ایم) کے حمایت یافتہ علی وزیر اور محسن داوڑ کی وفاقی وزرا کے ساتھ بات چیت ہوئی جس میں حکومت نے مخصوص شرائط کے ساتھ تنظیم کو پرامن کام کرنے کی پیش کش کردی۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق وزیراعظم عمران خان کی کابینہ کے 2 اہم رکن وزیر دفاع پرویز خٹک اور وزیرداخلہ بریگیڈیئر (ر) اعجاز شاہ کی جانب سے پی ٹی ایم کو ان شرائط پر مذاکرات کی پیش کش کی گئی کہ پی ٹی ایم اراکین صرف 'پاکستان کے ایجنڈے' پر عمل کریں گے اور اپنی تقاریر میں مسلح فورسز کو ہدف نہیں بنائیں گے۔

ایوان میں محسن داوڑ اور وزیرمواصلات مراد سعید کے درمیان پہلے ہی ہونے والی لفظی جنگ کے بعد وزیردفاع پرویز خٹک نے کہا کہ 'فوج بھی (وزیرستان) سے واپس آنا چاہتی ہے، اگر آپ کا ایجنڈا پاکستان ہے تو میں آپ سے بات چیت کرنے کو تیار ہوں'۔

تاہم ان کا کہنا تھا کہ 'اگر آپ ان اداروں کے خلاف بات کرتے رہے جنہوں نے ملک میں امن و سلامتی کو یقینی بنایا ہے تو آپ کو نہیں سنا جائے گا'۔

مزید پڑھیں: 'اب وقت ختم ہوا'، پاک فوج کی پی ٹی ایم رہنماؤں کو تنبیہ

پرویز خٹک کا کہنا تھا کہ حکومت نے اس سے قبل پی ٹی ایم سے بات کی تھی اور اب تقریباً ایک سال سے وہ اس تنظیم سے کہہ رہے کہ مذاکرات کی میز پر آئیں لیکن افسوس کی بات ہے کہ اس پیشکش کو مسترد کردیا گیا۔

وزیردفاع کا کہنا تھا کہ 'آپ کیوں بات نہیں کرتے؟ اگر آپ کا ایجنڈا کچھ اور ہے تو یہ مذاکرات نہیں ہوسکتے'۔

واضح رہے کہ علی وزیر اور محسن داوڑ کو 26 مئی کو شمالی وزیرستان میں خڑکمر کی فوجی چیک پوسٹ پر حملے کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا، جس کے بعد وہ 4 ماہ تک جیل میں رہے تھے، تاہم گزشتہ ماہ پشاور ہائی کورٹ کے بنوں بینچ نے ان کی ضمانت منظور کرلی۔

ضمانت منظوری کے بعد وہ 4 ماہ کے عرصے بعد قومی اسمبلی کے اجلاس میں شریک ہوئے۔

علاوہ ازیں ایوان میں پالیسی بیان دیتے ہوئے وزیرداخلہ بریگیڈیئر (ر) اعجاز شاہ نے کہا کہ وزیرستان چیک پوسٹ پر ہونے والا واقعہ اور پی ٹی ایم کی جانب سے مسلح فورسز کے خلاف استعمال کی جانے والی زبان سب 'دستاویزی' تھی۔

وفاقی وزیر کا کہنا تھا کہ دونوں ایم این اے کو پولیس کی جانب سے گرفتار کیا گیا تھا کیونکہ امن و امان صوبائی معاملہ تھا۔

بات کو جاری رکھتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ 'اگر آپ ایک مرکزی جماعت بننا چاہتے ہیں تو اپنے مطالبات کے ساتھ آئیں، ہمیں بتائیں اور ہم وزیراعظم کے ساتھ بیٹھیں گے'، ساتھ ہی انہوں نے وزیراعظم عمران خان کی اس بات کو دہرایا جس میں انہوں نے کہا تھا کہ پی ٹی ایم کے مطالبات جائز تھے۔

بریگیڈیئر(ر) اعجاز شاہ کا کہنا تھا کہ وہ کسی تنظیم کے خلاف نہیں تھے کیونکہ 'کوئی بھی کسی کے پیچھے نہیں ہے'۔

اپوزیشن کے کچھ اراکین کی نعرے بازی کے دوران انہوں نے کہا کہ 'پاکستان کے نعرے کو بلند کریں اور میرے پاس آئیں، ہم وہ کریں گے جو آپ چاہتے ہیں۔

وزیرداخلہ کا کہنا تھا کہ سابق وفاق کے زیرانتظام قبائلی علاقے (فاٹا) پہلے ہی خیبرپختونخوا میں ضم ہوچکے ہیں اور ان علاقوں میں ترقی کی جائے گی، تاہم ان علاقوں کی ترقی آسان ہوجائے گی اگر پی ٹی ایم حمایت کرے بصورت دیگر ان علاقوں میں کسی بھی قیمت پر ترقی کی جائے گی۔

اس سے قبل وزیرمملکت برائے پارلیمانی امور علی محمد خان نے بھی جذباتی تقریر کرتے ہوئے کہا تھا کہ پی ٹی ایم نہیں بلکہ پی ٹی آئی پشتونوں کی اصل نمائندہ ہے۔

علی محمد خان نے کہا کہ ان کے اہل خانہ دہشت گردی کا شکار ہوئے لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ دوسروں کے کہنے پر اپنے ملک کے خلاف حملہ کردیں۔

وزیرمملکت نے پی ٹی ایم کی مسلح افواج کے خلاف نعرے بازی اور اپنے جلسوں میں پاکستان کے جھنڈے کو ممنوع کرنے پر سخت تنقید کی۔

اس موقع پر علی محمد خان نے وزیراعظم عمران خان کے القاعدہ کو پاکستان کی جانب سے حمایت اور تربیت دینے سے متعلق بیان پر وضاحت دیتے ہوئے کہا کہ اس بیان کو سیاق و سباق سے ہٹ کر بیان کیا گیا۔

انہوں نے کہا کہ جو پاکستان میں رہتے ہیں انہیں 'پاک فوج زندہ باد' اور 'پاکستان زندہ باد' کے نعرے بلند کرنے چاہیئں۔

یہ بھی پڑھیں: پی ٹی ایم رہنما کے شمالی وزیرستان داخلے پر پابندی

قبل ازیں پوائنٹ آف آرڈر پر محسن داوڑ نے اظہار خیال کیا اور چیک پوسٹ پر کسی بھی طرح کے حملے میں ملوث ہونے کے الزام کو مسترد کردیا۔

انہوں نے واضح کیا کہ سیکیورٹی فورسز کی جانب سے سرچ آپریشن اور کچھ خواتین سے بدتمیزی کے خلاف احتجاج کی رپورٹس ملنے کے بعد وہ لوگ اس علاقے میں گئے تھے، ساتھ ہی انہوں نے الزام لگایا کہ اس مظاہرے کے دوران 15 افراد کو براہ راست فائرنگ کرکے قتل کردیا گیا۔

محسن داوڑ نے کہا کہ 'وہ چیک پوسٹ پر حملے کے الزامات پر کیس کا سامنا کر رہے ہیں لیکن 15 افراد کے قتل کے لیے کس پر ایف آئی آر درج ہوگی'۔

اسی دوران انہوں نے کہا کہ میں نے آپریشن ضرب عضب میں مارے گئے دہشت گردوں کے نام معلوم کرنے کے لیے سوال کیا تھا لیکن اب تک کوئی جواب موصول نہیں ہوا، ساتھ ہی انہون نے میڈیا پر بھی ان کی سرگرمیوں کا بلیک آؤٹ کرنے پر تنقید کی اور کہا کہ 'ایک طرف کی تصویر' پیش کی جارہی۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں