مصنوعی مٹھاس کا استعمال موٹاپے سے بچانے میں مددگار نہیں، تحقیق

20 دسمبر 2019
یہ بات ایک نئی طبی تحقیق میں سامنے آئی— شٹر اسٹاک فوٹو
یہ بات ایک نئی طبی تحقیق میں سامنے آئی— شٹر اسٹاک فوٹو

اکثر افراد چینی کے استعمال سے موٹاپے اور ذیابیطس جیسے امراض کے خطرے کو مدنظر رکھتے ہوئے مصنوعی مٹھاس کا استعمال کو ترجیح دینے لگتے ہیں، مگر یہ عادت بھی ان بیماریوں کا شکار بناسکتی ہے۔

یہ بات ایک نئی طبی تحقیق میں سامنے آئی اور محققین نے دستیاب شواہد کا تجزیہ کرنے کے بعد اس نتیجے کا اعلان کیا۔

چینی کا متبادل سمجھے جانے والی مصنوعی مٹھاس کی مصنوعات مشروبات اور سویٹنر وغیرہ، میں وٹامنز یا منرلز نہیں ہوتے، یعنی ان کا کوئی غذائی فائدہ نہیں جبکہ لگ بھگ ان میں کیلوریز کی شرح صفر ہوتی ہے۔

گزشتہ تین دہائیوں کے دوران مصنوعی مٹھاس کے استعمال کی شرح میں اضافہ ہوا ہے اور ساﺅتھ آسٹریلیا یونیورسٹی کی تحقیق میں بتایا گیا کہ اس مٹھاس اور جسمانی وزن میں اضافے اور ذیابیطس ٹائپ 2 کے درمیان تعلق دریافت کیا گیا ہے۔

محققین کا کہنا تھا کہ مصنوعی مٹھاس کے اثرات کے بارے میں طویل المعیاد تحقیق کی ضرورت ہے۔

تحقیقی ٹیم نے 5 ہزار سے زائد بالغ افراد پر 7 سے 8 کے عرصے تک جاری رہنے والی تحقیقی رپورٹس کا تجزیہ کیا۔

محققین نے دریافت کیا کہ جو لوگ دن میں کم از کم 2 بار مصنوعی مٹھاس کا استعمال کرتے ہیں، ان میں اس سے دور رہنے والوں کے مقابلے میں جسمانی وزن میں زیادہ اضافہ ہوتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ سویٹنرز جسمانی وزن میں کمی کے لیے اچھا ذریعہ ثابت ہوسکتے ہیں، مگر ایسا اسی وقت ممکن ہے جب غذا کا انتخاب درست ہے، مگر جو لوگ ان مصنوعات کا استعمال کرتے ہوئے ہیں وہ اکثر چینی بھی شوق سے کھاتے ہیں۔

انہوں نے یہ بھی دریافت کیا کہ مصنوعی مٹھاس سے معدے میں موجود بیکٹریا میں تبدیلیاں آسکتی ہیں جس کے نتیجے میں وزن میں اضافے اور ذیابیطس ٹائپ ٹو کے خطرات بڑھتے ہیں۔

تحقیق میں مشورہ دیا گیا کہ جسمانی وزن میں کمی کے لیے زیادہ بہتر یہ ہے کہ کم کیلوریز والی مصنوعی مٹھاس کی بجائے صحت بخش غذا جیسے دودھ کی مصنوعات، مچھلی، دالیں، سبزیاں، پھل، سادہ پانی اور دیگر اجناس کو ترجیح دی جائے۔

تاہم محققین نے یہ بھی کہا کہ تحقیق میں مصنوعی مٹھاس اور ذیابیطس ٹائپ ٹو کے درمیان تعلق کے میکنزم کی وضاحت نہیں کی جاسکی۔

اس سے قبل گزشتہ سال امریکا کے میڈیکل کالج آف وسکنسن اور Marquetteیونیورسٹی کی مشترکہ تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ مصنوعی مٹھاس میں ایسے کیمیکل موجود ہوتے ہیں جو جسم کی چربی کو گھلانے اور اسے توانائی میں تبدیلی کرنے کی صلاحیت کو بدل دیتے ہیں۔

تحقیق کے مطابق سویٹنر کا استعمال بائیو کیمیکل، چربی اور امینو ایسڈز (amino acids) کی مقدار بڑھاتا ہے۔

محققین نے اس حوالے سے چوہوں پر تجربات کے دوران ان کے خون میں یہ تبدیلیاں دیکھیں۔

محققین کا کہنا تھا کہ چینی کی جانب سویٹنر کا استعمال چربی اور توانائی کے میٹابولزم (metabolism) کو منفی انداز سے بدل دیتا ہے۔

اس تحقیق کے دوران محققین نے چوہوں کو ایسی غذا استعمال کرائی جو چینی یا مصنوعی مٹھاس سے بھرپور تھیں۔

3 ہفتے بعد خون کے نمونوں سے ان جانوروں کے بائیو کیمیکل، چربی اور امینو ایسڈز کے اجتماع میں نمایاں فرق دیکھا گیا۔

تحقیقی ٹیم کے قائد برائن ہوف مین نے بتایا ' ہمارے جسم میں ایسا نظام ہوتا ہے جو شکر کو سنبھالتا ہے، مگر طویل عرصے تک جب یہ نظام حد سے زیادہ کام کرتا ہے تو مشینری کی طرح ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہونے لگتا ہے، مگر ہم نے یہ بھی جانا کہ چینی کی جگہ سویٹنر کو دینا بھی منفی نتائج کا باعث بن سکتا ہے'۔

تاہم ان کا کہنا تھا کہ ابھی ہم واضح طور پر نہیں کہہ سکتے کہ مصنوعی مٹھاس چینی سے بہتر ہے یا بدتر 'میں لوگوں کو اعتدال کا مشورہ دوں گا کیونکہ ہر کسی کے لیے مٹھاس سے مکمل منہ موڑ لینا آسان نہیں ہوتا'۔

تبصرے (0) بند ہیں