• KHI: Maghrib 5:44pm Isha 7:06pm
  • LHR: Maghrib 5:00pm Isha 6:27pm
  • ISB: Maghrib 5:00pm Isha 6:29pm
  • KHI: Maghrib 5:44pm Isha 7:06pm
  • LHR: Maghrib 5:00pm Isha 6:27pm
  • ISB: Maghrib 5:00pm Isha 6:29pm

’نیب کے اختیارات میں کمی سے ایف آئی اے کے کردار میں اضافہ ہوسکتا ہے‘

شائع December 28, 2019
بدعنوانی کے خلاف ’اصلی رکاوٹ ‘ کسی مشتبہ ملزم کو 90 روز کے لیے زیرِ حراست رکھنے سے متعلق نیب کا اختیار تھا— فوٹو: ایف آئی اے فیس بک
بدعنوانی کے خلاف ’اصلی رکاوٹ ‘ کسی مشتبہ ملزم کو 90 روز کے لیے زیرِ حراست رکھنے سے متعلق نیب کا اختیار تھا— فوٹو: ایف آئی اے فیس بک

اسلام آباد: قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ قومی احتساب آرڈیننس میں ترامیم تاجر برادری اور سرکاری ملازمین کو قومی احتساب بیورو (نیب) کے دائرہ کار سے باہر لاسکتی ہیں اور اس سے وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کے کردار میں اضافہ ہوسکتا ہے۔

قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ بدعنوانی کے خلاف ’اصلی رکاوٹ ‘ کسی مشتبہ ملزم کو 90 روز کے لیے زیرِ حراست رکھنے سے متعلق نیب کا اختیار تھا لیکن اسے اب ختم کردیا گیا ہے کیونکہ تجویز کردہ قانون کے تحت کسی ملزم کا جسمانی ریمانڈ زیادہ سے زیادہ صرف 14 روز ہوگا۔

قبل ازیں کوئی ملزم صرف جسمانی ریمانڈ ختم ہونے یعنی 90 روز بعد ضمانت کے لیے درخواست دے سکتا تھا لیکن اب اسے کم کرکے 14 روز کرکے کسی ملزم کو ضمانت طلب کرنے کی اجازت دے دی گئی ہے۔

نیب کے سابق ڈپٹی پراسیکیوٹر جنرل راجا عامر عباس حسن نے کہا کہ تجویز کردہ قانون سازی نیب کو ایک غیرفعال ادارہ بنادے گی۔

مزید پڑھیں: نئے آرڈیننس کے ذریعے نیب کو تاجر برادری سے الگ کردیا، وزیر اعظم

انہوں نے کہا ایف آئی اے بالآخر مضبوط ہوگی کیونکہ ایف آئی اے کے ٹیکس چھوٹ، منی لانڈرنگ اور کرپشن کی تحقیقات کے اختیارات تاحال برقرار ہیں۔

حال ہی میں پاکستان تحریک انصاف(پی ٹی آئی) کی حکومت نے واجد ضیا کو ایف آئی اے کا ڈائریکٹر جنرل تعینات کیا تھا، واجد ضیا نے پاناما پیپرز سے جڑے معاملات کی تحقیقات کے لیے مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کی سربراہی کی تھی۔

عامر عباس حسن نے کہ تجویز کردہ قانون کے تحت نیب کے دائرہ کار کو بھی کم کردیا گیا ہے کیونکہ ٹیکس سے متعلق کییسز کو احتساب عدالت سے دیگر عدالتوں میں منتقل کیا جائے گا۔

قبل ازیں نیب کو انسداد بدعنوانی کی دیگر تنظیموں جیسا کہ صوبائی انسداد بدعنوانی اداروں اور ایف آئی اے سے انکوائریاں اور کیسز لینے کا اختیار حاصل تھا۔

جعلی اکاؤنٹس کیس کی تفتیش اصل میں وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) نے کی تھی لیکن بعدازاں اسے نیب میں منتقل کیا گیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: حکومت نے آرڈیننس کے ذریعے نیب کے اختیارات میں کمی کردی

سابق پراسیکیوٹر جنرل نے کہا کہ نیب کے دائرہ کار میں کسی منصوبہ بندی کے بغیر توسیع دی گئی تھی جس کے نتیجے میں وہ مطلوبہ نتائج دینے میں ناکام ہوگیا۔

سابق ایڈووکیٹ جنرل طارق محمود جہانگیری جو نیب کے ڈپٹی پراسیکیوٹر جنرل بھی رہ چکے ہیں، انہوں نے کہا کہ تاجر برادری کے لیے ریلیف کی تجویز دی گئی تھی لیکن سرکاری ملازمین ترامیم کا بہت فائدہ اٹھائیں گے۔

راجا عامر عباس حسن اور طارق محمود جہانگیری دونوں کا خیال تھا کہ چونکہ یہ عارضی قانون سازی ہے لہٰذا کسسی کو بھی صدارتی آرڈیننس کے نفاذ پر زیادہ پرجوش نہیں ہونا چاہیے۔

جب تک پارلیمنٹ کے دونوں ایوان اس قانون کی منظوری نہیں دیتے یہ اپنی آئینی مدت کے خاتمے کے بعد ختم ہوجائے گا جس کے نتیجے میں نیب کے اختیارات خود بخود بحال ہوجائیں گے۔


یہ خبر 28 دسمبر 2019 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی

کارٹون

کارٹون : 12 دسمبر 2024
کارٹون : 11 دسمبر 2024