اسلام آباد: ایبٹ آباد کمیشن کے اجلاس کا ایک منظر۔— اے پی پی فائل فوٹو
اسلام آباد: ایبٹ آباد کمیشن کے اجلاس کا ایک منظر۔— اے پی پی فائل فوٹو

ایبٹ آباد کمیشن نے نہ صرف سنسنی خیزی کو ہوا دی ہے بلکہ موجودہ وفاقی حکومت کو، جسے اس رپورٹ کا سب سے زیادہ فائدہ پہنچا ہے، نادرموقع فراہم کرتی ہے کہ وہ بد انتظامی کے پیمانے کو گھٹانے کی کوشش کرے جو کہ پاکستان میں تمام بحرانوں کی جڑ ہے-

اس مشاہدے کے بعد کہ ماضی کے تمام تحقیقاتی کمیشن کے نتائج اور سفارشات پر عمل درآمد کے تعلق سے ملک کا ریکارڈ افسوسناک ہے، کمیشن نے اس بات پر"اصرارکیا ہے کہ ملک کے قومی مفاد میں "حکومت کواس رپورٹ کو اردواور انگریزی دونوں زبانوں میں عوام کے سامنے پیش کرنا چاہئے"-

اگرحکومت سرکاری طور پر اس کا اجراء کرتی ہے تو اس میں اسی کا فائدہ ہے-

سابقہ حکومت پر کمیشن کی سخت تنقید کو عوام کے سامنے پیش کرنے میں اس کا کوئی نقصان نہیں ہے اور اس رپورٹ میں فوجی اور انٹلیجنس ایجنسیوں پر جو کچھ بھی تنقید کی گئی ہے اس سے اپنی لاتعلقی ظاہر کر کے اپنی ساکھ میں اضافہ کرسکتی ہے-

کمیشن نے خاصی صاف گوئی سے کام لیتے ہوئے ایبٹ آباد کینٹونمنٹ بورڈ سے لیکر وزیر اعظم کے دفتر تک، مختلف ریاستی محکموں کی نشان دہی کی ہے جنہوں نے اپنے فرائض کی بجاآوری میں غفلت اور نمایاں نااہلی کا مظاہرہ کیا-

رپورٹ میں اس بات کو تسلیم کیا گیا ہے کہ ریاست مکمل طور پربے اثر ہو گئی تھی-

کمیشن کی رپورٹ میں حکومت کی نااہلیت کی جو مثالیں دی گئی ہیں اس میں سابق وزیر دفاع کی بےبسی خاص طور پر قابل غور ہے-

انہوں نے "اعتراف کیا کہ وہ صورت حال سے قطعی طور پر لاعلم تھے" (اسامہ بن لادن کی تلاش کے سلسلے میں) اور کمیشن کو انہوں نے وہی بتایا ہے جو انہوں نے وزارت دفاع کی فائلوں میں پڑھا ہے-

کمیشن نے ان کو یاد دہانی کرائی کہ 1973 کے رولز آف بزنس کے تحت "پاکستان کی سرحدوں کے دفاع کی ذمہ داری وزارت دفاع کی ہے اور یہ کہ وزارت کو اپنی ذمہ داروں سے عہدہ برا ہونے کے خاصے اختیارات دئے گئے ہیں"-

جب ان سے ہزارہ کے علاقے میں ایک انڈونیشی باشندے کی گرفتاری کے بارے میں پوچھا گیا تو وزیر موصوف نے جواب دیا کہ اس کا جواب سکریٹری دفاع سے طلب کیا جانا چاہئے-

"جب انھیں بتایا گیا کہ وزارت دفاع کی پالیسی کی بنیادی ذمہ داری سکریٹری پر نہیں ان پر ہے تو وزیر صاحب نے فرمایا کہ حقیقت یہ ہے کہ ساری معلومات سکریٹری کی سطح پر پہنچائی جاتی ہیں اور وزیر دفاع کو ہمہ وقت باخبر نہیں رکھا جاتا- سکریٹری دفاع محکمہ کا افسر اعلی ہوتا ہے ساری فائلیں اسی کے گرد حرکت میں رہتی ہیں جس کے بعد وہ فوج کو واپس لوٹا دی جاتی ہیں- انہوں نے کہا کہ رولز آف بزنس پرحقیقی معنوں میں عمل درآمد کرنے میں ابھی کچھ وقت لگےگا-"

یہی دراصل فساد کی جڑ ہے- ریاست کے اندر ریاست کی موجودگی-

نواز شریف کی حکومت میں یہ محسوس ہوتا ہے کہ اس علت کو ختم کرنے کی صلاحیت موجود ہے- لوگوں کیلئے اس سے زیادہ خوشی کی بات اور کیا ہوگی اگر وہ اداروں کے جائز آئینی اختیارات کا تعین کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں-

اتنی ہی اہمیت اس بات کی ہے کہ نگراں شہری اداروں کو ازسر نو بحال اورمستحکم کیا جائے جن کی ناکامیوں اور نااہلیت کے نتیجے میں آئی ایس آئی کو ان ذمہ داریوں کا بوجھ اٹھانا پڑا جو اس کے دائرہ اختیار میں نہ تھے-

آئی ایس آئِی کے سابق چیف نے کمیشن کو بتایا کہ "حکومت نے کبھی بھی آئی ایس آئی سے یہ درخواست نہیں کی تھی کہ وہ دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کرے- آئی ایس آئی کو یہ ذمہ داری مروجہ نظام کی بے عملی اور دیگراداروں کے غیر موثرہونے کے نتیجے میں اٹھانی پڑی"-

یہی وجہ تھی کہ "آئی ایس آئی وہ کام کررہی تھی جو اس کے دائرہ اختیار میں نہ تھے"-

اس حقیقت کی بنا پر کہ سویلین اداروں میں سیاسی عمل دخل اپنی انتہا کو پہنچ چکا تھا- آئی ایس آئی پر بھاری بوجھ پڑ گیا اور اسے وہ ذمہ داریاں اٹھانی پڑیں جو اس پرعائد نہ تھیں"-

اگر حکومت ریاستی اداروں سے سیاسی اثرونفوذ نکالنے میں کامیاب ہو جائے اور انٹیلیجنس ایجنسیوں کو غیرضروری بوجھ سے آزاد ہونے میں معاونت کرے تو اس سے خود حکومت، آئی ایس آئی اورعوام کو فائدہ پہنچے گا-

رپورٹ میں پولیس فورس کی ناکامی کی بہت سی مثالیں دی گئی ہیں کہ وہ بدنظمی اور جرائم کو کنٹرول کرنے میں ناکام رہی اور خاس طور پر یہ کہ اس میں اتنی اہلیت نہیں ہے کہ وہ دہشت گردی کو روکنے کے اقدامات کر سکے-

کمیشن نے خیبرپختونخوا کے پولیس افسروں کو بھی جس میں ایبٹ آباد کے اسٹیشن ہاؤس آفیسر سے لیکرصوبائی پولیس کا چیف بھی شامل ہے خوب آڑے ہاتھوں لیا ہے کہ وہ اپنے فرائض انجام دینے میں ناکام رہے- اس میں اسامہ کی پناہ گاہ پر امریکی حملے کے فوراً بعد ایف آئی آر درج نہ کرنا بھی شامل ہے-

ان کی اس معذرت کو ناقابل قبول قرار دے کر کہ انہوں نے سارے امور ملٹری انٹلیجنس افسروں کے ہاتھوں میں چھوڑ دیئے تھے، کمیشن نے اس امر کی جانب اشارہ کیا ہے کہ پولیس اپنی ذمہ داریوں کو کسی اور کے حوالے نہیں کرسکتی-

انہوں نے زور دیکر یہ بات کہی کہ پولیس میں اتنی جرات ہونی چاہئے کہ وہ اپنے فرایض کی انجام دہی پر اصرار کرے- اگر سینئر افسروں کی سطح پر بھی اپنے فرایض سے بآسانی دستبردار ہونے کا رویہ پیدا ہو جائے تو بالاخر انتشار کی کیفیت پیدا ہو سکتی ہے، جیسا کہ واقعی ہوا-

کے پی کے سکریٹری داخلہ کی وضاحتوں کو سننے کے بعد کمیشن نے قدرے نرمی کا مظاہرہ کیا کیونکہ ان کے خیال میں پولیس جن حالات میں کام کر رہی تھی وہ ناسازگار تھے "گرچہ سینئر پولیس افسروں کے معذرت خواہانہ رویوں کو تسلیم نہیں کیا جاسکتا، اس بات کوبھی پیش نظر رکھنا چاہئے کہ وہ انتہائی گمراہ کن سیاسی اور بدانتظامی کے ماحول میں کام کررہے تھے جس میں اگر وہ اپنے فرایض کو ایمانداری سے انجام دیتے تو انھیں سخت سزاؤں کا سامنا کرنا پڑتا"-

سابق آئی ایس آئی چیف نے مزید ایک قدم آگے بڑھاتے ہوئے پنجاب پولیس پر الزام لگایا کہ وہ مبینہ طور پر دہشت گردوں کے ساتھ ملی ہوئی تھی-

ان کے مطابق، "لاہور میں پولیس نے گزشتہ سال (2010 ) ان لوگوں کا تحفظ کیا جنہوں نے قادنیوں پر حملہ کیا بلکہ انھیں اس اسپتال کا پتہ بھی دیا جہاں زخمیوں کا علاج ہورہا تھا- صوبائی حکومت کو اس صورت حال کی اطلاع دی گئی تھی لیکن اس نے آئی ایس آئی کی جانب سے فراہم کردہ مشورہ اورمعلومات کی جانب کوئی توجہ نہیں دی- اسپتال پر حفاظت کیلئے گارڈز بھی مامور نہیں کئے گئے کیونکہ ہر جگہ بدعنوان سیاسی اثرو نفوز کی مداخلت تھی" (یہ بات زور دیکر کہی گئی ہے )-

یہ یقینا ایک سنجیدہ نوعیت کا الزام ہے کیونکہ احمدیوں کے قاتلوں کو تحفظ دینے اور "بدعنوان سیاسی اثرات" کا بآسانی پتہ لگایا جا سکتا ہے-

اگر اس بات کو پیش نظر نہ بھی رکھا جائے کہ ایک ایسی پارٹی پنجاب میں سیاسی فائدہ اٹھانے میں کامیاب رہی ہے جس نے احمدیوں کے مخالف عناصر کی حمایت کی تھی، صوبائی حکومت کو چاہئے کہ وہ اس موقع کو ہاتھ سے جانے نہ دے- اس معاملے کی جامع تحقیقات کرے اور اپنی پوزیشن کو واضح کرے- بہت کم مواقع ایسے ہوتے ہیں جن میں خطرات نہ ہوں- ایبٹ آباد کمیشن کی رپورٹ پر خاموشی اختیار کرنا حکومت کیلئے نامناسب ہے-


ترجمہ: علی مظفر جعفری

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں