یہ کوئی ڈیڑھ سو سال پہلے یعنی 1868 میں جرمن ڈاکٹر کارل رین ہولڈ اگسٹ ویونڈرلیچ نے اس خیال کا اظہار کیا جو کہ اب تمام میڈیسین میں سب سے زیادہ جانے والا نمبر ہے اور وہ ہے 37 سینٹی گریڈ۔

جس کے بارے میں مانا جاتا ہے کہ یہ انسانی جسم کا اوسط درجہ حرارت ہے اور اس کی مدد سے بخار کی شناخت بھی کی جاتی ہے۔

مگر اب جاکر سائنسدانوں نے دریافت کیا ہے کہ 37 سینٹی گریڈ درحقیقت اب مستند نہیں رہا کیونکہ انسانی جسم ایسا لگتا ہے کہ ٹھنڈے ہونے لگے ہیں۔

امریکا کی اسٹینفورڈ یونیورسٹی اسکول آف میڈیسین کے محققین نے مختلف ادوار کے ڈیٹا کا موازنہ کیا ہے جس میں امریکی خانہ جنگی کا ریکارڈز، 1970 کی دہائی کا ہیلتھ سروے اور اسٹینفورڈ کا 2007 سے 2017 کے ڈیٹابیس شامل تھے۔

انسانی جسم کے درجہ حرارت کے ریکارڈز سے محققین نے دریافت کیا کہ مردوں کا جسمانی درجہ حرارت اوسطاً .58 سینٹی گریڈ کم ہوگیا ہے جبکہ خواتین میں یہ شرح .32 سینٹی گریڈ رہا، 1860 کی دہائی کے بعد سے اوسطاً ہر دہائی میں .03 سینٹی گریڈ درجہ حرارت کم ہوا۔

اور اس کی وجہ کیا ہے ؟ اس بارے میں سائنسدان کچھ مصدقہ طور پر بتانے سے قاصر ہیں مگر انہوں نے چند نظریات ضرور پیش کیے ہیں۔

جیسے انسانوں کو 1800 کے بعد سے متعدد سہولیات جیسے بہتر صفائی اور تیار کھانا وغیرہ ملی ہیں، جس کے نتیجے میں ممکنہ طور ہمارا میٹابولک ریٹ (درجہ حرارت اس ریٹ کی ایک علامت ہے)، جبکہ دائمی ورم جو کہ جسمانی درجہ حرارت بڑھاتا ہے، میں بھی طبی سائنس کی جدت کے نتیجے میں کمی آئی ہے۔

محققین کے خیال میں اوسطاً ہمارا جسم پہلے سے زیادہ صحت مند اور ہلکا سا ٹھنڈا ہوگیا ہے۔

یہ خیال ذہن میں رہے 1868 میں انسانوں کی اوسط عمر صرف 38 سال تھی۔

تبصرے (0) بند ہیں