جرمن عدالت کا اسکول میں برقع پہننے کے حق میں فیصلہ

اپ ڈیٹ 05 فروری 2020
ہیمبرگ کے ایک اسکول نے ایک طالبہ پر نقاب کرنے پر جرمانہ عائد کیا تھا—فوٹو: دی ریفرنس
ہیمبرگ کے ایک اسکول نے ایک طالبہ پر نقاب کرنے پر جرمانہ عائد کیا تھا—فوٹو: دی ریفرنس

یورپی ملک جرمنی میں اگرچہ مسلمان خواتین کی جانب سے پردہ کیے جانے پر کئی سال سے بحث جاری ہے اور متعدد بار وہاں مکمل جسم ڈھانپنے یا چہرے کا پردہ کرنے والی خواتین کو تضحیک کا نشانہ بھی بنایا جا چکا ہے۔

گزشتہ 5 سال کے دوران جرمنی کے متعدد شہروں میں جہاں خواتین کے مکمل جسم ڈھانپنے والے لباس پر پابندیاں عائد کی گئیں، وہیں نقاب، حجاب یا پردہ کرنے والی خواتین کو بھی دھمکیاں دی گئیں اور انہیں ہراساں کیے جانے کے واقعات بھی پیش آتے رہے۔

جرمنی کے زیادہ تر افراد اور سیاستدانوں کا خیال ہے کہ اپنا جسم مکمل طور پر ڈھانپنے والی خواتین یا چہرے پر پردہ کرنے والی خواتین شدت پسند ہوتی ہیں اس لیے ایسے لباس اور عمل کی ممانعت ہونی چاہیے۔

تاہم بعض افراد ایسے خیالات سے اتفاق نہیں کرتے اور ان کا خیال ہے کہ جس طرح کسی کو نیم عریاں لباس پہننے کا حق حاصل ہے اسی طرح دوسروں کو اپنا پورا جسم ڈھانپنے کا بھی حق حاصل ہونا چاہیے۔

اور اب جرمنی کے شہر ہیمبرگ کی مقامی عدالت نے بھی خواتین کی جانب سے پردہ کرنے کے حق میں فیصلہ سنادیا۔

بیلجیئم کے اخبار ’نیو یورپ‘ کے مطابق جرمنی کے شہر ہیمبرگ کی مقامی عدالت نے ایک خاتون کی درخواست پر ان کے حق میں فیصلہ سنا دیا۔

رپورٹ کے مطابق ہیمبرگ کی عدالت نے اپنے فیصلے میں قرار دیا کہ اسکول میں چہرے کا پردہ کرنے پر پابندی نہیں لگائی جا سکتی۔

مذکورہ عدالت کے فیصلے سے قبل ہیمبرگ کے ایک اسکول نے ایک 16 سالہ لڑکی پر حجاب کرنے پر جرمانہ عائد کردیا تھا۔

جرمنی میں حجاب کرنے والی خواتین کو شدت پسند تصور کیا جاتا ہے—فائل فوٹو: ڈی پی اے الائنس
جرمنی میں حجاب کرنے والی خواتین کو شدت پسند تصور کیا جاتا ہے—فائل فوٹو: ڈی پی اے الائنس

رپورٹ کے مطابق اسکول انتظامیہ نے حجاب کرنے والی 16 سالہ لڑکی کی والدہ کو سخت تنبیہہ کی تھی کہ وہ اپنی بیٹی کو حجاب کرنے سے روکیں اور ساتھ ہی اسکول انتظامیہ نے لڑکی پر 500 یورو یعنی تقریبا 85 ہزار روپے تک جرمانہ عائد کردیا تھا۔

حجاب کرنے والی لڑکی مذکورہ اسکول میں ریٹیل سیلز کی تعلیم حاصل کر رہی تھی تاہم اسکول انتظامیہ کے فیصلے کے بعد انہوں نے عدالت سے رجوع کیا۔

عدالت نے اپنے مختصر فیصلے میں بتایا کہ اسکول میں حجاب کرنے پر پابندی نہیں لگائی جا سکتی اور یہ کہ ہر کسی کو غیر مشروط طور پر مذہبی آزادی حاصل ہے۔

عدالت کی جانب سے حجاب کرنے والی لڑکی کے حق میں فیصلہ آنے کے بعد مقامی سیاستدانوں میں بھی غصے کی لہر دیکھی گئی اور ہیمبرگ سے تعلق رکھنے والے ایک سینیٹر کا کہنا تھا کہ اسکول میں ہر کسی کو ایک جیسے حق حاصل ہونے چاہیے۔

سینیٹر ٹائیز رابے کے مطابق اسکول میں ہر کوئی چہرے کے پردے کے بغیر ہوتا ہے اور وہاں پر ہر کسی کو یکساں حقوق کے ساتھ ہر چیز سیکھنے کا حق حاصل ہے، اس لیے وہاں پر کسی کا چہرہ دوسرے سے چھپا ہوا نہیں ہونا چاہیے۔

سینیٹر نے واضح کیا کہ اسکول اور تعلیم کا کسی کے مذہب یا فرقے سے کوئی تعلق نہیں تاہم وہاں اسکول میں ہر کسی کو ایک دوسرے کے چہرے دیکھنے کا حق حاصل ہے۔

جرمنی میں مسلمان خواتین کے پردے کرنے پر چند سال سے سخت بحث جاری ہے—فوٹو: ڈی پی اے الائنس
جرمنی میں مسلمان خواتین کے پردے کرنے پر چند سال سے سخت بحث جاری ہے—فوٹو: ڈی پی اے الائنس

تبصرے (0) بند ہیں