ہر کام روٹین کے مطابق وقت پر کرنے سے کئی مسائل حل ہوجاتے ہیں—فوٹو: شٹر اسٹاک
ہر کام روٹین کے مطابق وقت پر کرنے سے کئی مسائل حل ہوجاتے ہیں—فوٹو: شٹر اسٹاک

'بیٹی ہر وقت کارٹون دیکھنے کی ضد کرتی رہتی ہے، کارٹون نہ دکھاؤ تو بری طرح رونا دھونا شروع کردیتی ہے اور کارٹون دکھاؤ تو اس کا دماغ اوٹ پٹانگ حرکتوں میں لگا رہتا ہے۔ کارٹون بند کرو تو چڑ چڑے پن کا شکار ہو جاتی ہے، پھر نہ کچھ کھانا پینا پسند کرتی ہے اور نہ ہی کچھ سیکھنے کو تیار دکھائی دیتی ہے یقین مانیں ہم سب بہت ڈسٹرب ہو جاتے ہیں اس صورت حال سے، ایک واقف کار نے آج کل کے بچوں کے چند بڑے مسائل پر بات کرتے ہوئے بتایا۔

ان صاحب کی بتائی گئی مزید تفیصلات سے یہ بات بھی سامنے آئی کہ پڑھائی کے علاوہ بچی کی دن بھر کی مصروفیات کی کوئی ترتیب نہیں تھی جس کی وجہ سے اس کا اسکرین ٹائم بھی بڑھ گیا تھا اور ان کے گھر میں صحت مند سرگرمیاں بھی نہیں ہو پا رہی تھیں اور ان خرابیوں کی صرف ایک وجہ تھی کہ ان کے خاندان کی زندگی گزارنے کا کوئی مناسب طریقہ کار یا اسٹریٹجی نہیں تھی جسے عام زبان میں روٹین بھی کہا جا سکتا ہے۔

یہ روٹین کیا ہوتی ہے؟

ہماری لگی بندھی عادت کا مجموعہ جو ہم خود کار (Automatically) طریقے سے دن بھر کرتے رہتے ہیں روٹین (یا معمولات) کہلاتی ہے جیسے اٹھتے ہی دانت صاف کرنا، کپڑے بدلنا وغیرہ ۔

روٹین کی اہمیت کیوں ہے؟

روٹین 4 طرح سے کسی بھی خاندان کو مضبوط اور مطمئن رکھتی ہے-

1- صحت مند عادات پیدا کرنے میں روٹین سے بہتر کوئی چیز نہیں، یہ خاندان میں پسندیدہ اور مثبت عادات کے فروغ کے لیے اہم ہوتی ہے۔

2 - روٹین فیملی کے افراد میں تناؤ (یا اسٹریس) کم کرنے میں بھی مددگار ہوتی ہے کیونکہ مختلف معاملات پر رسپانس پہلے سے طے شدہ ہوتا ہے تو چھوٹی اور غیر اہم چیزوں پر آپسی اختلاف اور کشیدگی کم ہوتی ہے۔

3 - اقدار(ویلیوز) کی مضبوطی اور فروغ میں روٹین ایک انجن کا کام کرتی ہے۔

4 - روٹین بچوں کے ذہن میں تحفظ کا احساس پیدا کرتی ہیں، روٹین کی بدولت بچوں کی معلوم ہوتا ہے کہ اپنے بڑوں سے کیا کیا توقعات رکھی جا سکتی ہیں اور کیا نہیں، اس کے ساتھ ساتھ بچوں کو اس بات کا علم بھی ہوتا ہے کہ بڑے ان سے کیا توقعات رکھتے ہیں، یہ چیز بچوں میں فطری اعتماد پیدا کرتی ہے، اس کا دوسرا نتیجہ یہ بھی ہوتا ہے کہ بچے مشکل اور نئی طرح کی صورتحال میں مناسب رویہ اختیار کرنے کا مائنڈ سیٹ ڈیولپ کرتے ہیں۔

روٹین کے حوالے سے چند درج ذیل باتیں ذہن میں رکھنا ضروری ہے۔

1 - منٹ کے حساب سے روٹین کا ہونا لازمی نہیں۔

یہ ضروری نہیں کہ صبح سے شام تک ایک ایک منٹ کی روٹین پہلے سے تیار ہو، اس کے بذات خود نقصانات ہوتے ہیں اور افراد کی تخلیقیت اور صلاحیتوں(Creativity & Abilities) میں کمی ہوتی ہے، اس کے بجائے چند اہم کاموں سے روٹین کی شروعات کی جانی چاہیے جیسے صبح تیار کیسے ہونا ہے یا کس وقت ساتھ بیٹھ کر کھانا کھانا ہے کیوں کہ ان چھوٹی اور عام روٹین کے اثرات جلد ہی بچوں میں نظر آنے شروع ہو جائیں گے۔

2 - کیا روٹین تبدیل کی جانی چاہیے؟

جی ہاں! روٹین تبدیل کی جاسکتی ہے، اچھی روٹین ہمیشہ لچکدار ہونی چاہیے، اچانک بیماری، بیرون شہر سفر کرنے یا والدین کی زیادہ مصروفیات کی صورت یا ان جیسی دیگر وجوہات کی وجہ سے روٹین تبدیل کی جا سکتی ہے، روٹین کا مقصد بچوں میں ذمہ داری اور آزادانہ فیصلے کا رویہ پیدا کرنا ہوتا ہے نہ کہ اس روٹین کو ہر حال میں برقرار رکھنا لازمی ہے۔

3 - روٹین کا نتیجہ اسٹریس میں اضافہ نہیں بلکہ کمی ہونی چاہیے ۔

یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ روٹین کا مقصد فیملی میں اسٹریس کی سطح کم کرنا ہوتا ہے نہ کہ اس میں اضافہ، اگر آپ کی فیملی کی کوئی روٹین، آپ کے بچوں میں اسٹریس کا سبب بن رہی ہے تو اس کا جائزہ لیں، بچوں سے بات کریں، اگر اس میں تبدیلی کی گنجائش ہو تو اسے تبدیل کردیں، اگر تبدیل نہ کی جا سکتی ہو تو بچوں سے مشورہ کریں کیسے اسے ان کے لیے آسان بنایا جا سکتا ہے۔

روٹین کے آغاز کے لیے چند ٹپس ۔

فیملی روٹین بنانے کے لیے معاونت کے طور پر آغاز میں درج ذیل کام کیے جاسکتے ہیں-

1- صبح کی روٹین کو ترتیب دیں جیسا کہ اٹھتے ہی بستر ٹھیک کرنا، صفائی ستھرائی، دعا یا غور و فکر کرنا، اپنی جسامت اور دلچسپی کے لحاظ سے ورزش، صحت مند ناشتہ، دن بھر کی ایکٹیوٹیز کی ترتیب پر سوچنا، ان ایکٹیوٹیز کو اپنی زندگی کے اہم اہداف سے جوڑنا۔

کئی کامیاب لوگ اپنی زندگی کا آغاز اپنی روحانی روٹین سے کرتے ہیں جیسے نماز پڑھنا اور ہر کامیاب شخص اپنے اپنے عقائد کے مطابق اپنی روٹین کا آغاز کرتا ہے۔

2 - شام کی روٹین ترتیب دیں جیسا کہ اسکول یا دفتر سے واپسی پر موڈ خوشگوار رکھنا، نہانا (اور صبح ورزش نہ ہو پاتی ہو تو اس شام کے وقت ورزش کرنا) ہفتے میں کچھ دن فیملی کے ساتھ پارک یا پسندیدہ جگہوں پر جانے کے لیے مخصوص کرنا، دن بھر کی ایکٹیوٹیز پر سوچنا (کیا نیا سیکھا؟ کیا غلطیاں کیں؟ کیا اچھے کام کر سکے؟ اپنے زندگی کے اہداف پر کچھ کام کیا؟) اپنی اپنی پسند کے کھیل منتخب کرنا، کھیلنا اور لچکدار اسکرین ٹائم طے کرنا ۔

3 - سوتے وقت کی روٹین ترتیب دیں جیسا کہ بچوں کو کہانی سنانا، کتاب پڑھنا، ذہن کو سکون دینے والے کام جیسے دعا یا عبادت کو یکسوئی سے ادا کرنا وغیرہ۔

4 - چند دیگر درج ذیل کام بھی کیے جا سکتے ہیں۔

- گھر کے افراد سے محبت کا اظہار کرتے رہنا ۔

- کسی ایک وقت کا کھانا ساتھ بیٹھ کر کھانا ۔

- گھر کے افراد پریشان ہوں تو ان کی بات سننا یا کم از کم اپنی موجودگی کا احساس دلانا ۔

- خاندان کے فرد کی کسی منفرد پسند یا کام (جیسے پروفیشنل اتھلیٹ بننا، پینٹر بننا، مصنف یا کہانی نویس بننا وغیرہ) کی زبانی و عملی حوصلہ افزائی کرنا ۔

اگر مشکل اورمصروف ترین دنوں میں بھی آپ کی فیملی اچھا اور کوالٹی وقت ایک ساتھ گزار رہی ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ ایک اچھی روٹین بنانے میں کامیاب ہو چکے ہیں ۔


فرحان ظفر اپلائیڈ سائیکالوجی میں پوسٹ گریجویٹ ڈپلوما ہولڈر ہیں، ساتھ ہی آرگنائزیشن کنسلٹنسی، پرسنل اور پیرنٹس کاؤنسلنگ میں خصوصی دلچسپی رکھتے ہیں۔

ان کے ساتھ [email protected] اور ان کے فیس بک پر ان سے رابطہ کیا جا سکتا ہے۔


ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دیئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔

تبصرے (3) بند ہیں

Mrs Shah Feb 12, 2020 03:33pm
Insightful yet practical .... Thanks for such great wisdom sharing
fariha Feb 12, 2020 08:07pm
عمدہ تجاویز ہیں۔۔۔۔۔۔اصل بات یہ ہے کہ روٹین بننے کا آغاز ہو
زہیب اکرم Feb 12, 2020 08:07pm
رسمی تبصرے سے ہٹ کر ، پسندیدہ موضوع چھیڑ دیا یہ تو، مکمل اتفاق بھی ہے ، اور کوشش بھی کہ فیملی کا تو پتا نہیں ، کم از کم ، اپنی حد تک ، اس کام کو کیا جائے اور بچوں سے کیا شکایت ، بڑوں سے ڈسپلن نہیں ہو پارہا ہوتا سودا بازار سے لانا ہو ، اور کہہ دو کہ لکھ کردے دیں تو اس میں ، ہی لڑائی ہوجاتی ہے ;) پر اس کا حل وہی ہے مستقل مزاجی ، معاشرتی پیمانے کے مطابق ، ڈھٹائی چییں بہتر ہونا شروع ہوجاتی ہیں ۔ بندہ ڈھیٹ بن کر ، امپلینٹ کروائے یہ سب