جج کے بیٹے کے قتل کیس میں سابق جج کی سزائے موت برقرار

اپ ڈیٹ 21 اپريل 2020
دونوں درخواستگزاروں کا جرم ثابت ہوا ہے کیونکہ شواہد سابق جج کو قاتلوں سے جوڑتےہیں، سندھ ہائی کورٹ - فائل فوٹو:وکی میڈیا کامنز
دونوں درخواستگزاروں کا جرم ثابت ہوا ہے کیونکہ شواہد سابق جج کو قاتلوں سے جوڑتےہیں، سندھ ہائی کورٹ - فائل فوٹو:وکی میڈیا کامنز

کراچی: سندھ ہائی کورٹ نے ساتھی جج کے بیٹے کے قتل کے الزام میں سابق ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج اور اس کے ساتھیوں کی سزائے موت کو برقرار رکھنے کا فیصلہ سنا دیا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق انسداد دہشت گردی کی عدالت نے اگست 2018 میں سابق ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج (مٹھی) سکندر لاشاری اور عرفان خان عرف فہیم کو حیدرآباد میں ان کے ساتھی ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج خالد حسین شاہانی کے 19 سالہ بیٹے عاقب شاہانی کے قتل کے الزام میں سزائے موت سنائی تھی۔

اس حوالے سے بتایا گیا کہ فروری 2014 میں مبینہ طور پر ملزم کی بیٹی اور مقتول ایک دوسرے کو پسند کرتے تھے۔

دونوں مجرموں نے اپنے وکیلوں کے ذریعے ٹرائل کورٹ کے فیصلے کے خلاف ہائی کورٹ میں اپیلیں دائر کی تھیں اور دونوں فریقین کے دلائل سننے اور کیس کے ریکارڈ اور کارروائی کی جانچ پڑتال کے بعد جسٹس محمد علی مظہر کی سربراہی میں 2 رکنی بینچ نے اپیلوں کو خارج کرتے ہوئے ٹرائل کورٹ کے فیصلے کو برقرار رکھا۔

مزید پڑھیں: چوہدری اسلم قتل کیس: 2 ملزمان عدم ثبوت کی بنا پر بری

بینچ کے مشاہدے میں یہ بات آئی کہ دونوں مجرمان کا جرم ثابت ہوا ہے کیونکہ سابق ضلعی جج کا ایک پولیس افسر کے دفتر میں خفیہ طور پر ریکارڈ کیا گیا ایک ویڈیو بیان، اعتراف جرم اور کال ڈیٹا ریکارڈ ثبوت کے طور پر موجود ہے، جو سابق جج کو قاتلوں سے جوڑتے ہیں کہ وہ تمام روابط مہیا کر رہے تھے اور ان کے خلاف شواہد کا ایک براہ راست سلسلہ موجود تھا۔

بینچ نے فیصلہ دیا کہ یہ بات غیر یقینی طور پر قائم ہوچکی ہے کہ سابق جج پورے واقعہ کا ماسٹر مائنڈ تھا چونکہ اس نے اپنی انا اور انتقام کو پورا کرنے کے مقصد کے ساتھ اس کام کو پورا کرنے کے لیے قاتلوں کی خدمات حاصل کیں۔

عدالت کے مشاہدے میں یہ بات بھی آئی کہ ایک کمسن بچی کے والد کی حیثیت سے مقتول کے ساتھ اپنی بیٹی کے عشق کے بارے میں جاننے کے بعد ناراض ہوسکتے تھے لیکن اسی کے ساتھ ہی وہ ایک ڈسٹرکٹ اور سیشن جج بھی تھے اور اس میں بھی فرق ہونا چاہیے، عام یا ایک ان پڑھ شخص اور ضلعی جج جو انصاف کی فراہمی کے لیے قانون کا پاسبان سمجھا جاتا ہے، اس سے کسی طرح توقع نہیں کی جا سکتی تھی کہ وہ قانون کو اپنے ہاتھ میں لے گا۔

انہوں نے کہا کہ غیرت کے نام پر قتل کی ایک بدنما حرکت کو کارو کاری قرار دیا گیا ہے جو ہمارے معاشرے، انسانیت اور عوام کے لیے خطرناک ہے۔

فیصلے میں کہا گیا کہ حقیقت میں یہ قتل کا ایک ایسا فعل ہے جس میں ایک شخص کو اس کے اصلی یا سمجھے جانے والے غیر اخلاقی کاموں اور غلط کاروائیوں کے لیے قتل کیا جاتا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: تھائی لینڈ: جج نے قتل کیس کا فیصلہ سنا کر خود کو گولی مار لی

بینچ نے اپنے فیصلے میں کہا کہ 22 مارچ 2014 کو اس وقت کے ایس ایس پی پیر فرید جان سرہندی اور سکندر لاشاری کے مابین ہونے والی گفتگو کی ویڈیو سی ڈی کو ٹرائل کورٹ میں پیش کیا گیا تھا اور جانچ پڑتال کی گئی تھی جس میں سابق جج نے ماسٹر مائنڈ ہونے، قتل کرنے کے لیے قاتلوں کی خدمات حاصل کرنے سمیت متعدد انکشافات کیے تھے۔

استغاثہ کے مطابق عاقب عرف کاشف حیدر آباد کی ٹھنڈی سڑک پر اپنی گاڑی چلارہے تھے جس میں ان کی والدہ، دو بہنیں اور ایک رشتہ دار بھی موجود تھا کہ ایک مسلح شخص نے انہیں روکا اور گاڑی سے اتار کر ان پر گولیاں چلائی تھیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ سابق جج پر قتل کے الزامات عائد ہوئے تھے کیونکہ مقتول ان کی ایک بیٹی سے محبت کرتے تھے۔

تبصرے (0) بند ہیں