اس وقت دنیا کے بیشتر ممالک اپنے تمام تر وسائل کو بروئے کار لاتے ہوئے کورونا وائرس کے بحران پر قابو پانے کی کوششوں میں مصروف ہیں اور بحران سے پیدا ہونے والی اس مشکل اور غیر یقینی کی صورتحال نے معمولاتِ زندگی کو بدل کر رکھ دیا ہے۔

کورونا وائرس کی اس خطرناک وبا سے انسانی زندگیوں کو محفوظ بنانے اور اس کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے دنیا میں جا بجا چھوٹے سے چھوٹے اور بڑے سے بڑے شہر کو لاک ڈاؤن کیا جارہا ہے تاکہ اس وائرس کو پھیلنے سے روکا جاسکے۔

لیکن جہاں پوری دنیا نے اس وبا کو روکنے کے لیے لاک ڈاؤن کے آپشن کو اختیار کیا وہیں سویڈن دنیا کا ایک ایسا ملک ہے جس نے اپنے ہاں کورونا وائرس کی موجودگی اور اس سے ہونے والی اموات کے باوجود لاک ڈاؤن نہیں کیا۔

پھر یہ بھی یاد رکھیے کہ سویڈن کے ہمسایہ ممالک ڈنمارک اور ناروے میں سویڈن کی نسبت شرح اموات کم ہے لیکن اس کے باوجود وہاں بھی لاک ڈاؤن کی پالیسی اپنائی گئی ہے۔

یہی وجہ ہے کہ دنیا حیران ہے کہ سویڈن نے لاک ڈاؤن کے برخلاف فیصلہ کیوں کیا؟ حالانکہ ہر روز کورونا وائرس کی وجہ سے متعدد افراد لقمہ اجل بنتے جارہے ہیں۔ اب تک ڈیڑھ ہزار افراد سے بھی زائد اس وائرس کی وجہ سے موت کے منہ میں جاچکے ہیں جبکہ 15 ہزار کے قریب لوگوں میں کورونا وائرس کی تصدیق ہوچکی ہے۔

سویڈن میں کورونا وائرس کی موجودگی اور اس سے ہونے والی اموات کے باوجود لاک ڈاؤن نہیں کیا گیا
سویڈن میں کورونا وائرس کی موجودگی اور اس سے ہونے والی اموات کے باوجود لاک ڈاؤن نہیں کیا گیا

لیکن یہاں یہ بات بتانا بھی ضروری ہے کہ سویڈن میں لاک ڈاؤن نہ ہونے کا مطلب یہ نہیں کہ سب کچھ پہلے جیسا ہے۔ یعنی کالج، یونیورسٹیوں، سینما اور ہر ایسی جگہ یا تقریب پر بندش عائد کی گئی ہے جہاں 50 سے زائد افراد کا مجمع اکٹھا ہوتا ہو، جبکہ دوسری طرف ڈے کئیر اور اسکول کھلے ہیں۔ اسی طرح دفاتر بھی کھلے ہیں، ہاں لیکن جو ملازمین اپنے گھروں سے اپنا کام کرسکتے ہیں انہیں گھر سے کام کرنے کا مشورہ دیا گیا ہے، یہی وجہ ہے کہ دفاتر میں حاضری بہت کم ہے۔

حکومت کی جانب سے گھر تک محدود ہوجانے والوں اور بیماری کی صورت میں چھٹی کرنے والوں کے لیے مالی معاونت کا اعلان بھی کیا گیا ہے۔ عام حالات میں طبّی وجوہات کے باعث ایک ہفتے سے زائد دنوں کی چھٹی کرنے پر ڈاکٹر کے سرٹیفکیٹ کی ضرورت ہوتی ہے لیکن اب یہ مدت بڑھا کر 3 ہفتے کردی گئی ہے۔

یہاں بھی دیگر ملکوں کی طرح عوام کو غیر ضروری سفر نہ کرنے، سماجی فاصلہ رکھنے، ہاتھوں کو دھونے اور جراثیم کش محلول استعمال کرنے کی تاکید کی گئی ہے۔ یورپی یونین کے باہر سے کسی کو سویڈن آنے کی اجازت نہیں جبکہ شہریوں کو پبلک ٹرانسپورٹ کم سے کم استعمال کرنے کی ہدایت بھی کی گئی ہے۔

بازار، دفاتر، ریسٹورنٹ سب کھلے ہیں لیکن لوگوں کو سماجی فاصلہ رکھنے کی ہدایات مشتہر کی گئی ہیں۔ تجارتی مراکز میں لوگ عام خریداری میں مصروف ہیں اور سڑکوں پر اگرچہ معمول سے کم لیکن رش ضرور ہے۔

تجارتی مراکز میں لوگ عام خریداری میں مصروف ہیں

سویڈش وزیرِاعظم اسٹیفن لوین نے اپنی اہلیہ کے ساتھ ایک ریسٹورنٹ پر کھانا کھاتے ہوئے اپنے عوام کو پیغام دیا کہ وہ کاروباری اور معاشی سرگرمیوں میں حصہ لیتے رہیں تاکہ کوئی بحرانی کیفیت پیدا نہ ہو۔ انہوں نے کہا کہ کورونا وائرس کے پھیلاؤ سے جو احتیاط کی جاسکتی ہے وہ کی جانی چاہیے۔ سویڈش حکومت کے اقدامات کو کاروباری اور تجارتی حلقوں نے بہت سراہا ہے اور اسی وجہ سے حکمراں جماعت سوشل ڈیموکریٹ اور وزیرِاعظم اسٹیفن لوین کی مقبولیت میں کافی اضافہ بھی ہوا ہے۔

سویڈن کے لاک ڈاؤن نہ کرنے کی 2 بڑی وجوہات ہیں جنہیں ہم یہاں تفصیل سے پیش کرتے ہیں۔

سویڈن کے لاک ڈاؤن نہ کرنے کی پہلے بڑی وجہ اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے سانئسی اندازِ فکر کو اپنانا ہے۔ دیگر ممالک کے برعکس سویڈن میں سیاسی رہنماوں اور حکومت کے بجائے ملکی ادارے خودمختار ہیں اور وہ ہی پالیسی اور حکمتِ عملی بناتے ہیں جسے پھر حکومت نافذالعمل بناتی ہے۔

دراصل کورونا وائرس کے حوالے سے بھی صحتِ عامہ سے متعلق سرکاری اداروں کی بنائی ہوئی پالیسی پر ہی حکومت نے عملدرآمد کیا ہے۔ سب سے اہم ادارہ پبلک ہیلتھ ایجنسی ہے۔ سویڈن کی عالمی شہرت یافتہ میڈیکل یونیوسٹی کارولنسکا انسٹیٹیوٹ اسٹاک ہوم جہاں راقم طبّی تحقیق کے شعبے سے وابستہ ہے وہیں ہمارے دفتر اور لیبارٹریوں سے متصل پبلک ہیلتھ ایجنسی کا دفتر ہے۔

پبلک ہیلتھ ایجنسی کا دفتر
پبلک ہیلتھ ایجنسی کا دفتر

ہر روز دوپہر کے بعد اسی ادارہ کے ذمہ داران و نمائندگان میڈیا کو سویڈن میں کورونا وائرس کی تازہ ترین صورتحال سے آگاہ کرتے ہیں۔ پبلک ہیلتھ ایجنسی کے ساتھ دوسرے ادارے سویڈش ایجنسی برائے ہنگامی امداد اور قومی ادارہ برائے صحت و سماجی بہبود باہمی مشاورت لائحہ عمل اور تازہ ترین صورتحال سے عوام کو آگاہ رکھتے ہیں۔

دیگر ممالک میں یہی کام وزیرِاعظم یا وزرا کرتے ہیں۔ پبلک ہیلتھ ایجنسی نے لاک ڈاؤن نہ کرنے کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ اب جبکہ یہ وائرس پورے ملک بلکہ عالمی وبا کی صورت دنیا بھر میں پھیل چکا ہے تو ایسے میں لاک ڈاؤن بے معنی رہ جاتا ہے۔ لاک ڈاؤن سے وقتی طور پر شرحِ اموات اور پھیلاؤ کم ہوجاتا ہے لیکن جونہی لاک ڈاؤن ختم کریں گے تو یہ پھر شدت سے پھیلے گا۔

وہ یہ سوال بھی اٹھاتے ہیں کہ لاک ڈاؤن کتنے عرصے تک جاری رکھا جاسکتا ہے؟ چند ہفتوں کے بعد یہ ختم تو کرنا ہی ہوگا۔ لاک ڈاؤن سے بہتر ہے کہ نقل و حمل محدود کرنے اور سماجی فاصلے جیسی احتیاطی تدابیر اختیار کی جائیں، جو سویڈن نے کی ہیں۔

پالیسی سازوں کا خیال ہے کہ انتہائی نگہداشت میں آنے والے مریضوں کی تعداد اتنی ہونی چاہیے جتنی کہ ملک میں طبّی سہولیات کی گنجائش ہے۔ سویڈن کے ہمسایہ ملک ڈنمارک نے چند ہفتے لاک ڈاون کے بعد اس میں نرمی اختیار کی ہے لیکن وہاں سویڈن کے مقابلے میں شرحِ اموات کئی گنا کم ہے۔ سویڈن کے طبّی ماہرین کے مطابق ان کی پالیسی اب تک ان کی توقعات کے مطابق ہے اور امید ہے کہ اسی کو جاری رکھتے ہوئے حالات قابو میں رہیں گے۔

پبلک ہیلتھ ایجنسی کے ذمہ داران و نمائندگان میڈیا کو بریفنگ دیتے ہوئے

لاک ڈاؤن نہ ہونے کے باوجود سویڈن میں ملازمین کی اکثریت گھر سے کام کررہی ہے۔ ہمارے بہت سے دوست اپنے گھروں سے کام کررہے ہیں۔ کالج اور یونیوسٹی کے طلبہ بھی آن لائن تعلیمی سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہیں۔

لیکن لازمی شعبے کے لوگوں کو تو بہرحال کام پر جانا ہی ہے۔ ہمارا کام چونکہ طبّی تحقیق سے وابستہ ہے اس لیے ہمارے پاس گھر بیٹھ کر کام کرنے کا آپشن نہیں، لیکن سڑکوں پر رش کم ہونے سے وقت کی بچت ہوجاتی ہے، مزید یہ کہ آج کل گاڑیوں کی پارکنگ مفت ہے جس سے 15 ہزار پاکستانی روپوں کی بچت ہوجاتی ہے۔

ان تمام تر پہلوؤں میں ایک پہلو یہ بھی ہے کہ سویڈن میں بھی دنیا بھر کی طرح بیروزگاری کی شرح میں اضافہ ہوا ہے۔ بہت سے کاروباری اور تجارتی اداروں نے ملازمتیں وقتی طور پر کم کردیں ہیں۔ اب یہ ملازمین دوبارہ کب بحال ہوتے ہیں، اس بارے میں کچھ خبر نہیں۔

سویڈن میں اگرچہ پہلے جیسی رونق بھلے ہی نہ ہو لیکن زندگی رواں دواں ہے

سویڈن کی پالیسی پر دنیا بھر میں سوال اٹھائے جارہے ہیں جبکہ امریکی صدر ٹرمپ نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ اگر امریکا بھی سویڈن کی طرح لاک ڈاؤن نہیں کیا جاتا اب تک ان کے ہاں 20 لاکھ افراد موت کے منہ میں چلے جاتے۔

کورونا وائرس سے نمٹنے کے لیے سویڈش پالیسی وضح کرنے والے وبائی امراض کے ماہر اندرش تھیگ نیل (پبلک ہیلتھ ایجنسی) نے اس پر اپنا ردِعمل دیتے ہوئے کہا کہ امریکی صدر اپنے ملک پر توجہ دیں اور مزید بتایا کہ سویڈن میں حالات ان کی توقع کے مطابق ہیں۔ دنیا کی بہترین صحت کی سہولتیں بھی سویڈن کے شہریوں کو میسر ہیں۔

لاک ڈاؤن نہ کرنے کے خلاف سویڈن سے بھی کچھ آوازیں اٹھی ہیں اور طبّی محقق ڈاکٹر سیسلیا نے اندرش تھیگ نیل کے استعفے کا مطالبہ بھی کیا ہے۔ سویڈش وزیرِاعظم اسٹیفن لویون سے ٹی وی انٹرویو میں ایک صحافی نے یہ تک پوچھ لیا کہ ملک کو پبلک ہیلتھ ایجنسی چلا رہی ہے یا وہ چلا رہے ہیں۔ جس پر وزیرِاعظم نے وضاحت کی کہ حکومت کے سربراہ وہی ہیں لیکن اداروں کی رائے کی اپنی اہمیت ہے۔

سویڈش وزیرِ خارجہ انا لندے نے اسی پالیسی کا دفاع کرتے ہوئے سویڈن میں موجود غیر ملکی صحافیوں کو بتایا کہ یہ مفروضہ ہے کہ سویڈن میں سب کچھ عام حالات جیسا ہے۔ انہوں نے کہا کہ حکومت نے اہم سنجیدہ اقدامات کیے ہیں۔ فرق اتنا ہے کہ یہاں اسکول کھلے ہیں اور ہم لوگوں کو ان کے گھروں میں زبردستی نظر بند نہیں کرسکتے۔ لاک ڈاؤن ایک مختصر وقت کے لیے کیا جاسکتا ہے لیکن لمبی مدت کے لیے یہ قابلِ عمل نہیں۔ کورونا سے جنگ 100 میٹر دوڑ نہیں بلکہ میراتھن ہے۔

سویڈن میں لاک ڈاؤن نہ کرنے کی دوسری بڑی وجہ ملک کا آئین اور قانون ہے۔ سویڈن قانون کے مطابق شخصی آزادیوں پر پانبدی نہیں لگائی جاسکتی اور یہ صرف جنگ کی صورت میں ہی ممکن ہے۔

سویڈش حکومت کو اسکول بند کرنے کے بھی اختیارات حاصل نہیں۔ اس حوالے سے حکومت کو فیصلوں کا ایک حد تک ہی اختیار ہے، اور اس کے بعد پارلیمان کو حق حاصل ہے۔ حال ہی میں حکومت نے پارلیمان سے تعلیمی ادارے بند کرنے کے حوالے سے کچھ اختیارات حاصل کیے ہیں۔

سویڈن میں آئین اور قانون کی بالادستی ہے جبکہ قانون میں تبدیلی کا طریقہ بہت مشکل ہے۔ عوامی حقوق، شخصی آزادی اور نقل و حمل پر پابندیاں نہیں لگائی جاسکتیں۔ ان وجوہات کی بنا پر سویڈش حکومت عوام پر اپنا حکم تھوپنے کے بجائے ہدایات اور مشورے دیتی ہے۔ حکومت کو یقین ہے کہ اس کے تعلیم یافتہ اور باشعور عوام ان ہدایات پر عمل درآمد ضرور کریں گے۔

تو یہ وہ وجوہات ہیں جن کی بنا پر سویڈش حکومت نے کورونا وائرس کے نتیجے میں ہونے والی اموات کے باوجود لاک ڈاؤن نہیں کیا۔ یہ پالیسی کتنی کامیاب ہے اور کتنی ناکام اس کا فیصلہ تو آنے والا وقت ہی کرے گا۔

تبصرے (4) بند ہیں

[email protected] Apr 22, 2020 07:23pm
ڈاکٹر صاحب بہت خوب در اصل سویڈش لوگ اپنے اداروں پر مکمل اعتماد کرتے ہیں۔ سویڈشچلوگ کبھی سوچ بھی نہیں سکتے کہ ان کے ادارے انہیں غلط مشورہ دیں گے۔ دوسری وجہ یی بھی ہے کہ سویڈش ادارے کوئی ہیجانی کیفیت بھی پیدا نہیں کرنا چاھتے۔ بحرحال میں نے آپکا کالم لفظ بلفظ پڑھا ہے۔ حسب دستور آپ نے بہت اچھی انفارمیشن دی ہے۔ بیت بہت شکریہ ڈاکٹر صاحب۔ امید ہے کہ آپ اس مشکل وقت میں ،اپنی تمام تر مصرفییات کے باوجود ہمیں اپ دیٹ کرتے رہیں گے۔
M.Anwarul haq Apr 24, 2020 12:25am
Sweden is one of the few countries in the world where the death rate from corona disease is very high at 12%.
rizwan ali soomro Apr 24, 2020 05:29pm
Sawal yehi Pakistan ki awam itni awarnce hi ni ha jo sweedan Wali policy ki jaaye
Imran jamil Apr 25, 2020 12:48am
Dr Sb, Indeed it is a learning lesson for us.When whole nation thinks and behave like one nation rather than divided into many,such things happens even in a crises. Regards