زلمے خلیل زاد کا تمام فریقین سے افغانستان میں تشدد میں کمی کا مطالبہ

اپ ڈیٹ 21 مئ 2020
امریکی نمائندہ خصوصی نے کابل میں افغان حکومت کے رہنماؤں اور دوحہ میں طالبان رہنماؤں سے ملاقات کی تھی—  فوٹو:رائٹرز
امریکی نمائندہ خصوصی نے کابل میں افغان حکومت کے رہنماؤں اور دوحہ میں طالبان رہنماؤں سے ملاقات کی تھی— فوٹو:رائٹرز

امریکی نمائندہ خصوصی برائے امن عمل زلمے خلیل زاد نے تمام فریقین سے تشدد میں کمی لانے کا مطالبہ کردیا۔

زلمے خلیل زاد نے کابل میں افغان حکومت کے رہنماؤں سے ملاقات کے بعد گزشتہ روز دوحہ میں طالبان رہنماؤں سے ملاقات کی تھی۔

سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر کیے گئے ٹوئٹ میں زلمے خلیل زاد نے کہا کہ میں نے طالبان سے کہا کہ تمام فریقین کی جانب سے تشدد ختم کیا جانا چاہیے۔

مزید پڑھیں: خطے کے 4 ممالک کا افغان گروہوں سے جنگ بندی پر متفق ہونے پر زور

انہوں نے کہا کہ میں نے ملا برادر اور طالبان کے سیاسی روابط سے تعلق رکھنے والے اراکین سے لگاتار 3 ملاقاتیں کیں جن میں امریکا-طالبان معاہدے میں شامل انٹرا افغان مذاکرات، فوج کے انخلا اور تشدد میں بتدریج کمی سے مستقل جنگ بندی کے حوالے سے تبادلہ خیال کیا گیا۔

اس سے قبل انہوں نے کابل میں افغان صدر اشرف غنی اور ان کے سابق حریف عبداللہ عبداللہ سے ملاقات کی تھی۔

گزشتہ روز افغان طالبان کے سپریم لیڈر ملا ہیبت اللہ اخوندزادہ نے دشمنی ترک کرنے کی شرط پر اپنے مخالفین کے لیے عام معافی کا اعلان کرتے ہوئے کہا تھا کہ معاشرے کے ہر مرد و عورت رکن کو اس کا حق دیا جائے گا۔

عید الفطر سے قبل ایک پیغام جاری کرتے ہوئے طالبان رہنما نے خاص طور پر کہا تھا کہ ’اسلامی امارات‘ کی اجارہ داری کی پالیسی نہیں اور یقین دہانی کروائی کہ افغان معاشرے کے ہر مرد و عورت کو اس کے حقوق دیے جائیں گے تا کہ کسی کو محرومی یا نا انصافی کا احساس نہ ہو۔

طالبان قائد نے کہا تھا کہ ’ہم ہر ایک پر زور دیتے ہیں کہ ’اپنی مخالفت ترک کر کے معافی سے مکمل فائدہ اٹھائیں اور ایک اسلامی حکومت کے قیام میں رکاوٹ نہ بنیں جو لاکھوں، شہدا، زخمیوں، معذوروں، یتیموں، بیواؤں اور مشکلات کا شکار افغانوں کی خواہش ہے'۔

یہ بھی پڑھیں: طالبان کے سپریم لیڈر کا مخالفین کیلئے عام معافی کا اعلان

علاوہ ازیں 19 مئی کو خطے کے 4 ممالک نے افغان گروہوں سے جنگ بندی پر اتفاق کرنے، جلد از جلد امن مذاکرات شروع کرنے اور اپنی سرزمین پر موجود دہشت گرد گروہوں کے خلاف فیصلہ کن اقدامات لینے کا مطالبہ کیا تھا۔

مذکورہ مطالبہ افغانستان کی موجودہ صورتحال اور امن عمل کو درپیش مسائل سے متعلق پاکستان، ایران، روس اور چین کے مندوبین کے 'ورچوؤل' اجلاس کے بعد جاری مشترکہ اعلامیے میں کیا گیا تھا۔

یاد رہے کہ امریکا اور طالبان کے درمیان 29 فروری کو قطر کے دارالحکومت دوحہ میں امن معاہدہ ہوا تھا جس میں طے پایا تھا کہ افغان حکومت طالبان کے 5 ہزار قیدیوں کو رہا کرے گی جس کے بدلے میں طالبان حکومت کے ایک ہزار قیدی رہا کریں گے۔

قیدیوں کے تبادلے کا عمل 10 مارچ سے قبل مکمل ہونا تھا اور طالبان اور افغان حکومت کے درمیان مذاکرات کا آغاز ہونا تھا تاہم متعدد مسائل کی وجہ سے یہ عمل سست روی سے آگے بڑھا۔

مزید پڑھیں: بھارت کے حوالے سے زیر گردش خبروں کا افغان طالبان سے کوئی تعلق نہیں، ترجمان

تاہم افغانستان میں تشدد کی حالیہ لہر نے اس مسئلے کو مزید پیچیدہ کردیا ہے، جن میں سے کچھ حملوں بشمول 12 مئی کو میٹرنٹی ہسپتال میں کیے گئے حملے کو داعش سے منسوب کیا گیا۔

جس کے بعد افغان صدر اشرف غنی نے طالبان کے خلاف جارحانہ کارروائی کے دوبارہ آغاز کا حکم دیا تھا، افغان حکومت کے اعلان کے ردعمل میں طالبان نے کہا تھا کہ وہ افغان فورسز کے حملوں کے جواب دینے کے لیے مکمل طور پر تیار ہیں۔

طالبان نے کہا تھا کہ اب سے مزید کشیدگی کی ذمہ داری کابل انتظامیہ کے کاندھوں پر ہوگی۔

18 مئی کو قبل طالبان نے دوحہ معاہدے پر عملدرآمد کا مطالبہ دہرایا تھا، دوحہ میں طالبان کے سیاسی دفتر کے ترجمان سہیل شاہین نے کہا تھا کہ افغان مسئلے کا حل دوحہ معاہدے پر عمل میں ہے، قیدیوں کی رہائی کا عمل مکمل اور بین الافغان مذاکرات شروع ہونے چاہیئیں۔

تاہم اسی شب طالبان نے قندوز میں حملہ کیا، اس حوالے سے افغان وزارت دفاع نے کہا کہ حملے کو ناکام بنادیا گیا اور طالبان کو بھاری نقصان اٹھانا پڑا۔

تبصرے (0) بند ہیں