امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے سابق مشیر کا کہنا ہے کہ فروری 2019 میں پاکستان اور بھارت تنازع پر وائٹ ہاؤس ہلچل مچ گئی تھی اور حکام نے پاک فضائیہ کی جانب سے بھارتی طیارے کو مار گرانے کے بعد ایک ہنگامی اجلاس منعقد کیا تھا اور خطے کے ہم منصبوں کو کشیدگی کم کرنے پر زور دینے کے لیے کئی گھنٹوں تک کوششیں کی تھیں۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق سابق امریکی قومی سلامتی کے مشیر جان بولٹن نے وضاحت کی ہے کہ 27 فروری کو سینئر امریکی عہدیداروں نے تنازع کے بارے میں دیر رات تک اجلاس کیا حالانکہ وہ اس وقت افغانستان کے بارے میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ساتھ طویل اجلاس سے فارغ ہی ہوے تھے۔

انہوں نے اپنی منگل کے روز شائع ہونے والی اپنی کتاب روم ویئر اٹ ہیپنڈ (وہ کمرہ جہاں یہ ہوا) میں لکھا کہ ’مجھے لگا تھا کہ آج شام کا بس اتنا ہی کام تھا کہ اطلاع ملی کہک شانہن اور ڈنفورڈ مائیک پومپیو سے بھارت اور پاکستان کے بارے میں بات کرنا چاہتے ہیں‘۔

واضح رہے کہ اس کتاب کو شائع ہونے سے روکنے کے لیے ٹرمپ انتظامیہ عدالت سے رجوع کیا تھا تاہم اسے ناکامی کا سامنا کرنا پڑا تھا۔

جن شرکاء کا ان کے آخری ناموں سے انہوں نے ذکر کیا ان میں سیکرٹری خارجہ مائیک پومپیو، اس وقت کے امریکی جوائنٹ چیفس آف اسٹاف جنرل جوزف فرانسس ڈنفورڈ اور قائم مقام امریکی وزیر دفاع پیٹرک شانہن تھے۔

انہوں نے کہا کہ ’گھنٹوں تک فون کالز کے بعد بحران گزر گیا، شاید اس لیے کیونکہ جب دو جوہری طاقتیں اپنی فوجی صلاحیتوں کا استعمال کرتی ہیں تو بہتر ہے کہ اسے نظرانداز نہ کیا جائے‘۔

خیال رہے کہ جموں-سری نگر ہائی وے پر 14 فروری کو بھارت کے پیرا ملٹری فورس کے ایک قافلے پر عسکریت پسندوں کے حملے کے بعد 2019 کے پاک بھارت فوجی تنازع سامنے آیا تھا۔

اس حملے میں 40 سے زائد بھارت فوجی ہلاک ہوئے تھے۔

قافلے پر حملہ کرنے والا احمد عادل احمد ڈار کشمیر کا مقامی شہری تھا جو بھارت کی پالیسیوں سے ناخوش تھا اور اس کا پاکستان کے اندر کسی کشمیری گروپ سے کوئی تعلق نہیں تھا۔

تاہم ،نئی دہلی نے دھماکے کا ذمہ دار اسلام آباد کو ٹھہرایا اور 26 فروری کو بالاکوٹ میں انتقامی حملہ کیا تھا جو جموں و کشمیر کے متنازع علاقے کا حصہ نہیں ہے۔

آزاد تجزیہ کاروں نے اس حملے کے بارے میں شکوک و شبہات کا اظہار کرتے ہوئے نئی دہلی کے اس دعوے کو مسترد کردیا تھا کہ انہوں نے جیش محمد کے ایک تربیتی کیمپ کو نشانہ بنایا۔

فضائی حملے کے بعد اس علاقے کا دورہ کرنے والے بین الاقوامی میڈیا کے نمائندوں نے نوٹ کیا کہ ہدف ’مقامی بچوں کا ایک اسکول‘ تھا۔

یہ تصادم 2019 کے بھارتی عام انتخابات سے قبل پیش آیا تھا اور بھارت اور بیرون ملک کے سیاسی تجزیہ کاروں نے نوٹ کیا کہ انتقامی حملے سے حکمران بی جے پی پارٹی کے انتخابی امکانات بہتر ہوئے۔

بالاکوٹ حملے نے امریکا اور دیگر عالمی طاقتوں کو خوف زدہ کردیا تھا کیونکہ انہیں خدشہ تھا کہ پاکستان اپنی بین الاقوامی سرحد کی اس خلاف ورزی کا منہ توڑ جواب دے گا جس کی وجہ سے جنوبی ایشیا کی دو جوہری طاقتوں کے درمیان بڑے تنازع کا خطرہ ہوسکتا ہے۔

تاہم پاکستان نے صبر کا مظاہرہ کیا تاہم جب 27 فروری کو ایک اور  بھارتی طیارہ پاکستان کی حدود میں داخل ہوا تو اسے گرا دیا گیا تھا۔

بھارتی پائلٹ ونگ کمانڈر ابھی نندن کو مشتعل دیہاتیوں نے پکڑا اور وہ 60 گھنٹے تک پاکستان میں رہا جس کے بعد یکم مارچ کو جذبہ خیر سگالی کے طور پر بھارت کے حوالے کردیا گیا تھا۔

تبصرے (0) بند ہیں