عام طور پر درختوں پر پھول یا پھل ہی نظر آتے ہیں مگر سوچیں جب آپ کو وہاں اسمارٹ فونز جھولتے نظر آئے تو پھر؟

یہ کوئی مذاق نہیں درحقیقت امریکی شہر شکاکو میں ایسا منظر دیکھنے میں آرہا ہے۔

اور اس کی پیچھے چھپی وجہ بھی بہت دلچسپ ہے اور وہ ہے زیادہ سے زیادہ کام اپنے لیے حاصل کرنا۔

بلومبرگ کی ایک رپورٹ کے مطابق معروف کمپنی ایمیزون کے لیے خودمختار حیثیت میں کام کرنے والے ڈرائیوروں نے دوسروں کے مقابلے میں زیادہ آرڈر حاصل کرنے کا حیران کن طریقہ ڈھونڈ لیا ہے۔

شکاگو کے نواح میں ایمیزون کے ڈیلیوری اسٹیشنز اور ہول فوڈ اسٹورز کے باہر یہ عجیب و غریب نظارہ دیکھنے میں آرہا ہے۔

ان درختوں پر ڈیلیوری ڈرائیور اسمارٹ فون لٹکا دیئے ہیں تاکہ صارفین کے زیادہ سے زیادہ آرڈر حاصل کرکے آمدنی میں اضافہ کیا جاسکے، چاہے وہ اس جگہ سے بہت دور ہی کیوں نہ ہوں۔

عام طور پر ایمیزون کے آرڈر بک کرنے والا الگورتھم ایسے ڈرائیوروں کو ترجیح دیتا ہے جو ویئرہاؤس کے قریب ہوں اور ایسے افراد کو پہلے ڈیلیوری کا موقع فراہم کرتا ہے۔

یہ نظام ایمیزون کے فلیکس ڈیلیوری سسٹم کے تحت کام کرتا ہے جسے کمپنی نے گوداموں سے صارفین کے گھروں تک اشیا کی ڈیلیوری کے لیے متعارف کرایا تھا۔

رپورٹ کے مطابق ڈرائیوروں نے درختوں پر یہ فون لٹکا کر انہیں اپنے پاس موجود فونز سے منسلک کردیا ہے تاکہ دیگر کے مقابلے میں انہیں کچھ سبقت حاصل ہوسکے۔

اس کے ساتھ ساتھ درختوں پر لٹکے یہ فون ایمیزون کے سسٹم سے بھی جڑے ہیں اور ڈرائیور چاہے وہاں سے میلوں دور ہی کیوں نہ ہو، سسٹم کو ایسا ہی محسوس ہوتا ہے کہ وہ قریب موجود ہے۔

رپورٹ میں بتایا گیا کہ یہ تو واضح نہیں کہ کتنے افراد اس طریقے کو استعمال کررہے ہیں مگر اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ آمدنی میں کمی کی وجہ سے لوگ کس طرح جارحانہ انداز سے دوسروں سے مقابلہ کررہے ہیں۔

ایمیزون کے ڈرائیوروں کو فی گھنٹہ 15 سے 18 ڈالرز ملتے ہیں جبکہ ایندھن اور گاڑی کی مرمت کے اخراجات بھی نہیں دیئے جاتے۔

کورونا وائرس کی وبا کے نتیجے میں آن لائن خریداری کا رجحان بڑھا ہے اور ایمیزون کی آمدنی میں نمایاں اضافہ ہوا ہے جس کے باعث کمپنی نے ڈیلیوری کے لیے نئے ورکرز کی خدمات بھی حاصل کی ہیں۔

یہ ڈرائیور کمپنی کے ملازم نہیں بلکہ کنٹریکٹ پر کام کرتے ہیں تو فارغ وقت پر انہیں کچھ نہیں ملتا۔

رپورٹ میں مزید بتایا گیا کہ کچھ ڈرائیوروں نے کمپنی کو اس بارے مین آگاہ کیا بلکہ کمپنی کو بھی اس کا علم ہے مگر اس کی جانب سے فی الحال کچھ نہیں کیا گیا۔

اس کی ایک ممکنہ وجہ تو یہ ہے کہ کمپنی کو اس حکمت عملی کو اختیار کرنے والوں کی شناخت میں مشکل کا سامنا ہے کیونکہ اتنے زیادہ اسمارٹ فونز ایک علاقے میں استعمال ہورہے ہیں، ان سے کسی ایک کو پہچاننا آسان نہیں۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں