پاکستان میڈیکل کمیشن کی منظوری آئین سے ٹکراؤ کے مترادف ہے، ڈاکٹر عذرا پیچوہو

03 اکتوبر 2020
ڈاکٹرعذرا پیچوہو نے پاکستان میڈیکل کمیشن کو چھوٹے صوبوں کے لیے تباہی کا باعث قرار دیا—فائل/فوٹو:ڈان
ڈاکٹرعذرا پیچوہو نے پاکستان میڈیکل کمیشن کو چھوٹے صوبوں کے لیے تباہی کا باعث قرار دیا—فائل/فوٹو:ڈان

پاکستان پیپلزپارٹی (پی پی پی) کی رہنما اوروزیر صحت سندھ ڈاکٹرعذرا پیچوہو نے وفاقی حکومت کی جانب سے منظور کیے گئے پاکستان میڈیکل کمیشن بل کی مخالفت کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس بل سے چھوٹے صوبوں میں طبی شعبہ متاثر ہوگا اور مرکزی حکومت کا یہ عمل آئین سے ٹکراؤ کے متراد ہے۔

ڈاکٹر عذرا پیچوہو نے کہا کہ وفاقی حکومت نے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں پاکستان میڈیکل کمیشن کا بل اس وقت منظور کیا جب حزب اختلاف کے بیشتر ارکان ایوان میں موجود نہیں تھے اس سے قبل سینیٹ میں اکثریتی ووٹ کے ذریعہ اسی بل کو مسترد کردیا گیا تھا۔

انہوں نے کہا کہ اس مضحکہ خیز بل کی منظوری 18ویں آئینی ترمیم کی خلاف ورزی ہے جس کے تحت صحت کا شعبہ صوبائی معاملہ جبکہ وفاق کا یہ طرز عمل آئین سے ٹکراؤ کے مترادف ہے۔

مزید پڑھیں:قومی اسمبلی میں اپوزیشن کے شدید احتجاج کے باوجود 11 بل منظور

صوبائی وزیر صحت کا کہنا تھا کہ یہ بل چھوٹے صوبوں کے لیے تباہی کا باعث ہوگا کیوں کہ اس کے تحت نجی سطح پرچلنے والے میڈیکل کالجوں اور یونیورسٹیوں میں متعلقہ صوبے کے علاوہ دیگر طلبہ کو داخلہ دینے کی اجازت مل جاۓ گی۔

ان کا کہنا تھا کہ سندھ میں تقریباً 5 ہزار ڈاکٹر ہر سال فارغ التحصیل ہوتے ہیں جن میں سرکاری یونیورسٹیوں سے 2 ہزار 500 ڈاکٹروں کو صوبائی ڈومیسائل پالیسی پر عمل کرنے کی اجازت ہوگی حالانکہ طلبہ کی ایک بڑی تعداد نجی یونیورسٹیوں سے بھی فارغ التحصیل ہوتی ہے جن کی تعداد تقریباً دو ہزار 700 بنتی ہے۔

اپنے بیان میں انہوں نے کہا کہ نجی اداروں کے لیے ڈومیسائل پالیسی ختم ہونے سے سندھ میں زیادہ تر پنجاب سے تعلق رکھنے والے طلبہ کو داخلے مل سکیں گے اور وہ یہاں سے ڈگری حاصل کرنے کے بعد واپس اپنے صوبے میں جا کر طبی خدمات سرانجام دیں گے جس کی وجہ سے ظاہر ہے سندھ میں ڈاکٹروں کی کمی کا سامنا ہوگا۔

صوبائی وزیر صحت کا کہنا تھا کہ اس ایکٹ کے تحت وفاقی حکومت نے میڈیکل یونیورسٹیوں اور کالجوں میں داخلہ لینے والے طلبہ کے لیے ایم ڈی سی اے ٹی کے ذریعی داخلے کی پالیسی بھی بنا لی ہے۔

وفاقی حکومت کے اس اقدام پر تنقید کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ اس پالیسی کے تحت داخلہ ٹیسٹ وفاقی حکومت تیار کرے گی جو وفاقی نصاب کی بنیاد پر بنایا جائے گا جبکہ یہاں ہر صوبے کے اپنے تعلیمی بورڈ ہیں اور ہر صوبے کا اپنا نصاب ہے، اس لیے طلبہ کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔

انہوں نے کہا کہ گزشتہ سابق کے امتحانات میں پنجاب آخری سیٹ 93 فیصد جبکہ سندھ میں 73 فیصد رزلٹ رہا یعنی 20 فیصد کا فرق تھا باقی جو کہ باقی دیگر چھوٹے صوبوں میں اس سے بھی زیادہ فرق تھا، اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ سندھ کے نجی شعبے کی 20 فیصد نشستیں اور دیگر چھوٹے صوبوں کی نشستوں پر زیادہ تعداد پنجاب سے آنے والے طلبہ آجائیں گے۔

یہ بھی پڑھیں:طبی تنظیموں کی پاکستان میڈیکل کمیشن بل پر تنقید

ان کا کہنا تھا کہ اس سے چھوٹے صوبوں کے لوگوں کے حقوق کی واضح طور پر خلاف ورزی ہوگی اور نجی شعبے کے کالج اور یونیورسٹیاں اپنی فیس کا ڈھانچہ طے کرنے کے لیے خود مختار اور آزاد ہوں گی جس سے اشرافیہ کے لیے پیسا کمانے کا موقع مل جاۓ گا جبکہ پیشہ ورانہ تعلیم کے بجائے نجی ادارے کاروبار کی طرح اس شعبے کو چلائیں گے۔

ڈاکٹر عذرا پیچوہو کا کہنا تھا کہ اس بل میں شق 18 کے ذیلی دفعہ (2) کے تحت واضح طور پر کہا گیا ہے کہ ‘پاکستان میں کسی بھی طالب علم کو میڈیکل یا ڈینٹل ڈگری نہیں دی جائے گی جس نے پاکستان میں میڈیکل یا ڈینٹل کالج میں داخلہ لینے سے قبل ایم ڈی سی اے ٹی پاس نہیں کی ہو اور یہ شرط 2021 میں لاگو ہوگی’۔

انہوں نے کہا کہ میں یہ یقین سے کہتی ہوں کہ پی ایم ڈی سی کافی بہتر ضابطہ کار ادارہ تھا جس کو تحلیل کرنے کی ضرورت نہیں تھی، یہ نیا کمیشن صرف صوبوں کے عوام کے حقوق کو پامال کرے گا اور چھوٹے صوبوں میں انسانی وسائل کی دستیابی کو متاثر گا۔

صوبائی وزیر صحت کا کہنا تھا کہ میں ایک عام شہری کی حیثیت سے بتانا چاہتی ہوں کہ وفاق گمراہ کن پالیسیوں کے تحت کھیل رہا ہے، میری پریشانی نہ صرف سندھ کے عوام بلکہ بلوچستان کے لوگوں کی بھی ہے جو اس وقت سندھ اور خیبرپختونخواہ کے مقابلے میں ابتر حالات کا سامنا کر رہے ہیں۔

مزید پڑھیں:حکومت سندھ نے وفاق کا ادویات کی قیمتوں میں اضافے کا فیصلہ مسترد کردیا

خیال رہے کہ گزشتہ ماہ پارلیمان کے مشترکہ اجلاس میں پاکستان میڈیکل کمیشن ایکٹ 2020 منظور کیا گیا تھا جس کے بعد یہ منظوری کے لیے صدر مملکت کو بھجوایا دیا گیا، اس بل کے قانون بننے کے بعد پی ایم ڈی سی ختم ہوجائے گی اور اس کی جگہ پی ایم سی کام کرے گی۔

گزشتہ برس پی ایم سی آرڈیننس نافذ کیا گیا تھا جس میں نہ صرف پی ایم ڈی سی تحلیل ہوگئی تھی بلکہ کونسل کے 20 ملازمین کی ملازمت بھی ختم کردی گئی تھی تاہم اسلام آباد ہائی کورٹ نے آرڈیننس کو کالعدم قرار دے کر ملازمین کو ان کے عہدوں پر بحال کردیا تھا۔

حکومت قومی اسمبلی کے نئے سیشن کے پہلے روز ہی ریکارڈ قانون سازی کروانے میں کامیاب ہوگئی تھی جبکہ اپوزیشن کی جانب سے شدید احتجاج کیا گیا تھا اس کے باوجود 11 بل منظور کر لیے گئے تھے۔

اپوزیشن ارکان کے 'گو نیازی گو' کے نعروں کی گونج میں حکومت نے پاکستان طبی کمیشن بل 2019 بھی منظور کر لیا تھا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں