دلچسپ اور سنسنی خیز مقابلوں سے بھرپور نیشنل ٹی20 ٹورنامنٹ خیبر پختونخوا کی فتح کے ساتھ اختتام پذیر ہوا۔ اس ٹورنامنٹ کے 33 مقابلے 6 علاقائی ٹیموں کے مابین ملتان اور راولپنڈی میں کھیلے گئے۔

موجودہ ٹورنامنٹ میں جہاں بہت سے کھلاڑیوں نے انفرادی سطح پر شاندار کارکردگی کا مظاہرہ کرکے قومی ٹیم میں اپنی شمولیت کی راہ ہموار کی، وہیں یہ ٹورنامنٹ اس لحاظ سے منفرد تھا کہ کورونا وائرس کے باعث ٹورنامنٹ کے تمام مقابلے تماشائیوں سے خالی اسٹیڈیم میں کھیلے گئے۔

اس ٹورنامنٹ کا اگر جائزہ لیا جائے تو چند دلچسپ عوامل سامنے آتے ہیں اور ہم قارئین کی دلچسپی کے لیے ان کا جائزہ پیش کر رہے ہیں۔

ٹیموں کے طریقہ انتخاب پر نظرثانی کی ضرورت

پاکستان کرکٹ بورڈ (پی سی بی) نے اس ٹورنامنٹ کے لیے 6 ٹیموں کا انتخاب کیا لیکن ٹیموں کے انتخاب کے لیے جو معیار مقرر کیا گیا، وہ کرکٹ کے عام شائقین کی سمجھ سے بالاتر ہے۔

ٹورنامنٹ میں شرکت کرنے والی ٹیموں میں ناردرن پنجاب اور خیبر پختونخوا کی ٹیمیں اتنی مضبوط تھیں کہ کسی بھی ٹیم کے لیے ان کو ہرانا مشکل تھا۔ ناردرن اور خیبر پختونخوا کی دوسری ٹیموں پر برتری کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ یہی وہ 2 ٹیمیں تھیں جو سب سے پہلے سیمی فائنل میں پہنچیں۔

قومی ٹیم کے لیے باقاعدگی سے کھیلنے والے زیادہ تر کھلاڑی انہی ٹیموں کا حصہ تھے۔ ناردرن پنجاب کی ٹیم باقیوں کے مقابلے میں اس قدر مضبوط تھی کہ اس نے اپنے ابتدائی 7 میں سے 6 میچوں میں کامیابی حاصل کرکے اپنی مخالف ٹیموں کے لیے خطرے کا اعلان کردیا تھا۔ اگر سیمی فائنل میں ناردرن کو سدرن پنجاب کے خلاف غیر متوقع شکست نہیں ہوتی، تو فائنل بھی ناردرن اور خیبر پختونخوا کے مابین ہی کھیلا جاتا۔

چونکہ ابھی 21ء-2020ء کے ڈومیسٹک سیزن میں چند اور ٹورنامنٹس بشمول قائدِاعظم ٹرافی کھیلے جانے ہیں، اس لیے پی سی بی کو چاہیے کہ ٹیموں کے انتخاب کے قوائد و ضوابط پر نظرثانی کرے اور ڈومیسٹک کرکٹ میں شامل ٹیموں کے منتظمین کو اپنی اپنی ٹیموں کا انتخاب کرنے کا ایک موقع اور فراہم کرے۔

پچوں کی تیاری

نیشنل ٹی20 ٹورنامنٹ کے دوران بہت سے ہائی اسکورنگ میچ کھیلے گئے لیکن پھر بھی پچوں کی تیاری میں کچھ جھول رہ گیا۔ یہ جھول راولپنڈی میں ہونے والے میچوں کے دوران زیادہ نظر آیا جہاں زیادہ تر میچوں میں شام کو گیند ابتدائی اوورز کے دوران بہت زیادہ سوئنگ ہوتی نظر آئی اور ہدف کا تعاقب کرنے والی ٹیم کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑا.

پاکستان کرکٹ بورڈ جہاں بہت سے شعبوں میں جدت لارہا ہے وہیں ان کو گراؤنڈ مین اور کیوریٹرز کی تربیت کا بھی انتظام کرنا چاہیے۔ کیوریٹر کو اس بات کا مکمل ادراک ہونا چاہیے کہ مختصر اوورز کی کرکٹ اور طویل دورانیے کی کرکٹ میں فرق ہوتا ہے اور دونوں طرز کی کرکٹ کی مناسبت سے ان کے پاس پچ تیار کرنے کی صلاحیت ہونی چاہیے۔

فیلڈنگ کا معیار

نیشنل ٹی20 ٹورنامنٹ کے دوران فیلڈنگ کا معیار نہایت غیر تسلی بخش رہا۔ سدرن پنجاب کی ٹیم نے تو خراب فیلڈنگ کی روایت کو فائنل میں بھی برقرار رکھا اور اس اہم میچ میں محمد حفیظ کے 3 کیچ چھوڑنے کے ساتھ ساتھ کُل 5 کیچ گرا دیے اور یہی وہ خراب فیلڈنگ تھی جو ان کی شکست کی وجہ بنی۔

سدرن پنجاب کے علاوہ سندھ اور دیگر ٹیموں نے بھی متعدد مرتبہ اپنی ناقص فیلڈنگ کے باعث اپنے مداحوں کو مایوس کیا۔ پاکستان کرکٹ بورڈ کو چاہیے کہ جتنے بھی کھلاڑی ڈومیسٹک کرکٹ سے منسلک ہیں ان کو نیشنل کرکٹ اکیڈمی میں بھیج کر ان کی مجموعی فٹنس اور ان کی فیلڈنگ کرنے کی صلاحیت کو بہتر کرنے کے لیے خصوصی اقدامت کرے۔

شعیب ملک نیشنل ٹی20 ٹورنامنٹ میں کھیلنے والے سب سے عمر رسیدہ کھلاڑی تھے، لیکن اس کے باوجود فائنل میں انہوں نے جس انداز میں حسین طلعت کا کیچ پکڑا وہ قابلِ دید منظر تھا۔

نوجوان کھلاڑیوں کو سمجھ لینا چاہیے کہ وہ چاہے جتنی بھی اچھی بیٹنگ یا باؤلنگ کرتے ہوں، لیکن اگر فیلڈنگ کے میدان میں کمزور ہیں تو ان کی گاڑی زیادہ عرصہ نہیں چل سکے گی۔ اس لیے اس شعبے پر خاص توجہ دیں، بلکہ اس میں بہتری کے لیے شعیب ملک، یونس خان سمیت ہر اس سینئر اور جونیئر کھلاڑی سے مشورہ کریں جو اس میدان میں اچھا پرفارم کرتا ہے۔

فیلڈنگ کا بہتر ہونا صرف کھلاڑیوں کے لیے سودمند نہیں بلکہ ٹیموں کی جیت اور ہار کا انحصار بھی اس پر ہوتا ہے۔ دنیا بھر کی ٹیموں کا ذکر کریں تو ہر جانب فیلڈنگ پر خاص توجہ دی جارہی ہے، لیکن پاکستان اس شعبے میں دنیا کی دیگر ٹیموں کے مقابلے میں خاصا پیچھے ہے۔ اگر پاکستان کو بین الاقوامی کرکٹ میں صفِ اوّل کی ٹیموں میں جگہ بنانی ہے تو فیلڈنگ میں بہتری ناگزیر ہوچکی ہے۔

سدرن پنجاب کی اڑان

اگر ٹورنامنٹ کے شروع سے آخر تک بات کی جائے تو سدرن پنجاب زیادہ وقت پوائنٹس ٹیبل پر آخری نمبر پر رہی۔ اس ٹیم نے اپنے ابتدائی 7 میں سے صرف 2 میچ جیتے تھے۔ بظاہر اس ٹیم کے سیمی فائنل میں پہنچنے کے امکانات بھی معدوم تھے لیکن پھر ٹورنامنٹ کے آخری چند دنوں میں قسمت کی دیوی نے اس ٹیم کا خوب ساتھ دیا۔

یہ ٹیم ناصرف اپنے آخری 2 لیگ میچ جیتی بلکہ 3 یا 4 دوسرے میچوں کے نتائج بھی ان کے حق میں گئے اور یوں ٹورنامنٹ کے ابتدائی 17 دن پوائنٹس ٹیبل پر آخری نمبر پر رہنے والی ٹیم معجزاتی طور پر سیمی فائنل میں پہنچ گئی اور ناردرن پنجاب کو شکست دے کر تو جیسے سب کو ہی حیران کردیا۔

نئے چہروں کی دریافت

دانش عزیز، عبداللہ شفیق اور خوشدل شاہ نے اس ٹورنامنٹ میں مختلف مراحل میں بہت شاندار بیٹنگ کا مظاہرہ کرکے اپنی اپنی ٹیموں کو فتوحات دلوانے میں کلیدی کردار ادا کیا۔

عبداللہ شفیق

عبداللہ شفیق نے نیشنل ٹی20 ٹورنامنٹ میں سینٹرل پنجاب کی طرف سے کھیلتے ہوئے ٹی20 کرکٹ میں اپنا ڈیبیو کیا اور اپنے پہلے ہی میچ میں فتح گر سنچری اسکور کردی۔ اس سے پہلے عبداللہ شفیق اپنے فرسٹ کلاس کیریئر کا آغاز بھی سنچری کیساتھ کرچکے تھے۔

اس ٹورنامنٹ میں عبداللہ شفیق نے 44.75 کی اوسط سے 358 رنز بنائے۔ ان کی اس شاندار کارکردگی کی بدولت ان کو زمبابوے کے خلاف کھیلی جانے والی ٹی20 اور ایک روزہ میچوں کی سیریز کے لیے قومی ٹیم میں منتخب کرلیا گیا۔

خوشدل شاہ

نیشنل ٹی20 ٹورنامنٹ کے 16ویں میچ میں خوشدل شاہ نے سندھ کے خلاف صرف 35 گیندوں پر سنچری مکمل کرکے اپنی ٹیم کو ایک ناقابلِ یقین فتح دلوانے کیساتھ ساتھ ایک مرتبہ پھر اپنی صلاحیتوں کا مظاہرہ بھی کیا۔ ویسے تو خوشدل اس سال کے اوائل میں کھیلی گئی پاکستان سپر لیگ (پی ایس ایل) میں بھی اپنے جوہر دکھا چکے تھے لیکن اس موجودہ ٹورنامنٹ میں 177.45 کے اسٹرائیک ریٹ سے 362 رنز بناکر انہوں نے اپنے ٹیلنٹ کا ایک مرتبہ پھر مظاہرہ کیا ہے۔ امید ہے کہ مستقبل میں خوشدل شاہ اپنی کارکردگی سے قومی ٹیم میں اپنی جگہ مستقل کرلیں گے۔

دانش عزیز

سندھ کی نمائندگی کرنے والے دانش عزیز نے بھی اس ٹورنامنٹ کے دوران متعدد عمدہ اننگز کھیلیں۔ ٹورنامنٹ کے ایک اہم میچ میں جب سندھ کی ٹیم خیبر پختونخوا کے بنائے گئے 138 رنز کا تعاقب کرتے ہوئے صرف 34 رنز پر اپنی 7 وکٹیں گنوا چکی تھی تو اس موقع پر دانش عزیز نے 72 رنز کی شاندار اننگز کھیل کر اپنی ٹیم کو حیران کن فتح دلوا دی۔ دانش عزیز نے اس ٹورنامنٹ میں 73.33 کی شاندار اوسط سے 220 رنز بنائے۔ دانش نے یہ رنز 154.92 کے اسٹرائیک ریٹ سے بنائے۔ دانش عزیز اگر ڈومیسٹک کرکٹ میں اسی طرح تسلسل کے ساتھ کارکردگی پیش کرتے رہے تو اس بات کا قوی امکان ہے کہ وہ جلد ہی قومی ٹیم کے لیے بھی متخب ہوجائیں گے۔

الوداع عمر گل

نیشنل ٹی20 ٹورنامنٹ، پاکستان کے لیے بے شمار خدمات انجام دینے والے عمر گل کے طویل کرکٹ کیریئر کا آخری ٹورنامنٹ ثابت ہوا۔ عمر گل نے 2003ء میں بنگلہ دیش کے خلاف کراچی میں اپنے ٹیسٹ کیریئر کا آغاز کیا۔ انہوں نے 47 ٹیسٹ، 130 ایک روزہ اور 60 ٹی20 میچوں میں قومی ٹیم کی نمائندگی کی۔ 2009ء کے ٹی20 ورلڈ کپ میں بھی پاکستان کی فتح میں عمر گل نے اہم کردار ادا کیا۔ ہم عمر گل کا شکریہ ادا کرتے ہیں کہ انہوں نے قومی ٹیم کے لیے بے شمار خدمات سرانجام دیں اور ان کے پورے کیریئر میں کوئی ایک داغ بھی نہ لگ سکا۔

کوریج کا غیر تسلی بخش معیار

پاکستان ٹیل ویژن نے نیشنل ٹی20 کپ کے تمام میچ براہِ راست دکھائے لیکن کوریج کا مجموعی معیار خاصا غیر تسلی بخش تھا۔ ٹیلی ویژن کی اسکرین پر بہت سے اہم اعداد و شمار یا تو موجود نہیں تھے یا پھر اتنے باریک لکھے ہوئے تھے کہ ان کو دیکھنے کے لیے دور بین درکار ہوتی۔ دنیا جس تیز رفتاری سے ترقی کر رہی ہے، پاکستان ٹیلی ویژن کو بھی اس رفتار سے آگے بڑھنے کے لیے اقدامات کرنے چاہیے۔

چونکہ کورونا وائرس کی وجہ سے کھیلوں کے میدانوں کی رونق طویل عرصے سے ماند پڑی تھی، اس لیے شائقینِ کرکٹ نے نیشنل ٹی20 ٹورنامنٹ سے خوب لطف اٹھایا۔ لیکن پی سی بی کو چاہیے کہ وہ اس ٹورنامنٹ کا باریک بینی سے جائزہ لے اور اس میں موجود خامیوں پر قابو پاکر اگلے سال کرکٹ کے شائقین کے لیے ایک بہتر ٹورنامنٹ لے کر آئیں۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (2) بند ہیں

حماداللہ سوہو Oct 21, 2020 01:46pm
بہت ہی اچھے طریقے سے لکھا گیا ہے یہ آرٹیکل۔ سب پہلو ٹھیک سے کور کیے گئے ہیں۔
علی Oct 21, 2020 02:38pm
فیلڈنگ کا معیار انتہائی پست تھا۔ باقی وقت کے ساتھ صحیح ہونا چاھیے