دنیا بھر میں ڈیڑھ سو سے زائد کورونا وائرس ویکسینز کوو تیار کرنے کے لیے کام ہورہا ہے اور توقع ہے کہ ریکارڈ وقت میں ان میں سے کوئی دستیاب ہوگی، جس سے عالمی وبا پر قابو پانے میں مدد مل سکے گی۔

عالمی ادارہ صحت کی جانب سے بھی ایک ویکسین کی تیاری میں عالمی کوششوں میں تعاون فراہم کیا جارہا ہے اور وہ 2021 کے آخر تک 2 ارب ڈوز لوگوں تک پہنچانے کے لیے پرعزم ہے۔

عام طور پر ایک ویکسین کو تیار کرکے عام لوگوں تک پہنچانے میں 10 سے 15 سال لگ جاتے ہیں اور اب تک جو ویکسین سب سے تیزی سے تیار ہوئی، وہ 1960 کی دہائی میں mumps ویکسین تھی جو 4 سال میں تیار ہوئی۔

ویکسینز کو استعمال کے لیے ریگولیٹری منظوری کے لیے بھیجنے سے قبل 3 مراحل پر مشتمل کلینیکل ٹرائل کے عمل سے گزرنا پڑتا ہے، جو ایک طویل عمل ہوتا ہے۔

یہاں تک کہ جب کسی ویکسین کو منظوری مل جاتی ہے تو بھی اسے پروڈکشن اور تقسیم کے مراحل میں مختلف رکاوٹوں کا سامنا ہوتا ہے، جبکہ یہ فیصلہ بھی کرنا ہے کہ کن افراد کو سب سے پہلے ویکسین فراہم کی جائے اور قیمت کیا ہو۔

مگر کورونا وائرس کی وبا کے باعث ہنگامی حالات کو دیکھتے ہوئے کچھ ویکسین تیار کرنے والوں کی جانب سے مختلف ٹرائلز مراحل کو الگ الگ کی بجائے ایک ساتھ مکمل کیا جارہا ہے۔

ویکسینز کا مقصد مدافعتی نظام کو اس وائرس کے خلاف دفاع کے لیے مضبوط بنانا ہے اور اس مقصد کے لیے کچھ ویکسینز میں مکمل کورونا وائرسز کو استعمال کیا جارہا ہے، مگر مردہ یا کمزور شکل میں، دیگر میں وائرس کا کچھ حصہ جیسے پروٹین یا ذرات کو استعمال کیا جارہا ہے۔

کچھ ایسی بھی ہیں جن میں کورونا وائرس پروٹینز کو ایک دوسرے وائرس میں منتقل کیا جارہا ہے جو لوگوں میں بیماری کی صلاحیت نہیں رکھتا۔

اور چند ایسی ویکسینز بھی ہیں جن میں کورونا وائرس کے جینیاتی مواد پر انحصار کیا جارہا ہے۔

ابھی تو یہ کہنا قبل از وقت ہے کہ کونسی ویکسینز کامیاب ہوں گی مگر جو نمایاں امیدوار اس دوڑ میں نظر آرہے ہیں، وہ درج ذیل ہیں۔

نووا ویکس

اسے ایک امریکی بائیوٹیکنالوجی کمپنی تیار کررہی ہے جس میں کورونا وائرس کے اسپائیک پروٹینز کو استعمال کیا جارہا ہے، یعنی وہ حصہ جو اس وائرس کو خلیات پر حملہ کرنے میں مدد دیتا ہے۔

اس ویکسین میں اسپائیک پروٹینز کا امتزاج ایک نانو پارٹیکل سے کیا گیا ہے، جس کے ساتھ ایک مرکب بھی موجود ہے تاکہ مدافعتی ردعمل کو متحرک کیا جاسکے۔

اس ویکسین کے 2 ڈوز 21 دنوں کے وقفے میں استعمال کرائے جائیں گے اور 2 ستمبر کو ایک تحقیق میں دریافت کیا گیا تھا کہ ابتدائی مرحلے میں یہ ویکسین محفوظ اور کورونا وائرس کے خلاف اتی طاقتور اینٹی باڈیز تیار کرتی ہے جو بیماری سے تحفظ فراہم کرسکیں۔

یہ ویکسین ابھی تیسرے مرحلے سے گزر رہی ہے اور کب تک اس کی تیاری ہوسکے گی، فی الحال کچھ کہنا مشکل ہے۔

جونسن اینڈ جونسن

دنیا کی چند بڑی دوا ساز کمپنینوں میں سے ایک کمپنی کی اس ویکسین میں نئے کورونا وائرس کے ڈی این اے کے ایک حصے کو ایک عام نزلہ زکام کا باعث بننے والے وائرس ایڈنووائرس سے ساتھ ملایا گیا ہے۔

ایڈنو وائرس کو جینیاتی طور پر اس طرح تبدیل کیا گیا جو اسے جسم کے اندر اپنی نقول بنانے نہیں دیتا اور جولائی میں ایک تحقیق میں دریافت کیا گیا تھا کہ بندروں میں اس کے استعمال سے وائرس کو ناکارہ بنانے والی اینٹی باڈیز بن گئی جبکہ ایسا کرنے کے لیے صرف ایک ڈوز کی ضرورت پڑی۔

ستمبر کے آخر میں کمپنی نے تیسرے مرحلے کے آغاز کا اعلان کیا تھا اور اکتوبر میں ایک رضاکار کی بیماری کے باعث اسے روکا گیا، مگر اکتوبر کے آخر میں ٹرائل پھر سے شروع کردیا گیا۔

موڈرینا

اس کمپنی کی ایم آر این اے 1273 نامی ویکسین کا انسانی ٹرائل دنیا میں سب سے پہلے شروع ہوا تھا، جس کی تیاری کے لیے وائرس کے جینیاتی مواد ایم آر این اے پر انحصار کیا جارہا ہے۔

اس ویکسین کے 2 ڈوز کا استعمال 4 ہفتوں کے وقفے میں کرایا جائے گا۔

اس ویکسین کے ٹرائل کا تیسرا مرحلہ 27 جولائی کو شروع ہوا تھا جبکہ ابتدائی مراحل میں یہ اینٹی باڈیز اور ٹی سیلز کا ردعمل پیدا کرنے میں کامیاب رہی۔

تاہم ستمبر میں کمپنی کے چیف ایگزیکٹیو اسٹیفن بینکل نے نیویارک ٹائمز کو بتایا تھا کہ ویکسین کی بڑے پیمانے پر دستیاب 2021 کی پہلی ششماہی سے قبل ممکن نہیں ہوگی۔

فیزر

اس کمپنی کی بی این ٹی 162بی 2 ویکسین جرمن بائیو ٹیک کمپنی بائیو این ٹیک کے اشتراک سے تیار کی جارہی ہے۔

اس ویکسین کے لیے بھی ایم آر این اے پر انحصار کیا جارہا ہے اور فیزر نے امریکی حکومت کے ساتھ دسمبر 2020 میں 10 کروڑ ڈوز فراہم کرنے کے 2 ارب ڈالرز کے معاہدے پر دستخط بھی کیے تھے، جس کا اطلاق اس وقت ہوگا جب ویکسین تیار ہوکر استعمال کے لیے منظوری حاصل کرسکے گی۔

اس ویکسین کے دوسرے اور تیسرے مرحلے کے ٹرائل مشترکہ طور پر 27 جولائی کو شروع ہوئے اور کمپنی کو توقع ہے کہ سال کے اختتام سے پہلے وہ اسے ریگولیٹری منظوری کے لیے پیش کرسکے گی جبکہ 2021 کے آخر تک ایک ارب 30 کروڑ ڈوز سپلائی کرسکے گی۔

ویکسین کے ابتدائی مرحلے میں یہ ویکسین کورونا وائرس سے تحفظ فراہم کرنے والے اینٹی باڈیز اور ٹی سیلز ردعمل فراہم کرنے میں کامیاب رہی۔

آکسفورڈ یونیورسٹی

اس ویکسین کے لیے برطانوی یونیورسٹی نے دوا ساز کمپنی آسترازینیکا سے اشتراک کیا ہے۔

آکسفورڈ یونیورسٹی کی ٹیم درحقیقت کورونا وائرس جیسی وبا کے لیے پہلے سے تیاری کررہی تھی۔اس مقصد کے لیے انہوں نے پہلے سے جینیاتی تدوین شدہ چیمپئنزی وائرس کو تیار کیا ہوا تھا جو اس نئے وائرس کی بنیاد ہے۔

انہیں توقع ہے کہ وہ ایسا محفوظ وائرس اس ویکسین کا حصہ بناسکیں گے جو کووڈ 19 کے خلاف مدافعتی نظام کو لڑنے کی تربیت دے سکے گا، آکسفورڈ یونیورسٹی اور آسترازینیکا نے ایک ارب ویکسین ڈوز تیار کرنے کا منصوبہ بنایا ہے جو کم قیمت میں نفراہم کی جائے گی۔

ابتدائی نتائج میں یعنی اولین 2 ٹرائلز میں یہ ویکسین مضبوط مدافعتی ردعمل پیدا کرنے میں کامیاب رہی جبکہ معمولی مضر اثرات دیکھنے میں آئے۔

ایسا مانا جارہا ہے کہ یہ ویکسین دسمبر کے آخر تک تیار ہوسکتی ہے جس کے بعد اس کی ریگولیٹری منظوری کا عمل شروع ہوگا۔

سینویک

اس چینی کمپنی نے اپنی ویکسین کو کورونا ویک کا نام دیا ہے اور برازیل کے ایک تحقیقی مرکز سے اشتراک کیا ہے۔

اس ویکسین میں کورونا وائرس کے غیرمتعددی ورژن کو استعمال کرکے مدافعتی ردعمل کو متحرک کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔

تیسرے مرحلے کے ابتدائی نتائج کے مطابق 9 ہزار رضاکاروں میں اس تجرباتی ویکسین کے 2 ڈوز کا استعمال محفوظ ثابت ہوا ہے۔

درحقیقت چین میں تو لوگوں کو یہ ویکسین دستیاب ہے اور وہاں اس کے 2 ڈوز 2 ہزار چینی یوآن میں حاصل کیے جاسکتے ہیں۔

سینوفارم

چین کی سرکاری دوا ساز کمپنی نے اس ویکسین کی تیاری کے لیے ووہان انسٹیٹوٹ آف بائیولوجیک پراڈکٹس سے اشتراک کیا ہے۔

اس کی تیاری کے لیے غیرفعال کورونا وائرس کو استعمال کیا جارہا ہے اور توقع ہے کہ 2020 کے آخر تک عوام کو دستیاب ہوگی۔

ابتدائی نتائج میں دریافت کیا گیا کہ اس ویکسین کے استعمال سے مضبوط اینٹی باڈی ردعمل پیدا ہوا جبککہ کوئی سنگین مضر اثرات بھی سامنے نہیں آئے۔

چین بھر میں اس ویکسین کو لاکھوں شہریوں کو استعمال بھی کرایا گیا جس کے لیے حکومت کی ایمرجنسی استعمال کی منظوری حاصل کی گئی جبکہ پاکستان میں بھی اس کے ٹرائل پر کام ہورہا ہے۔

کینس سینو بائیولوجکس

اس چینی ویکسین کوک ایڈ 5 این کوو کا نام دیا گیا ہے جس میں ایڈنو وائرس کے کمزور ورژن کو استعمال کرکے جسم کو نئے کورونا وائرس کے اسپائیک پروٹین سے متعارف کرایاا جائے گا۔

ابتدائی 2 مراحل کے نتائج میں ثابت ہوا کہ اس ویکسین سے ایک ڈوز سے بیشتر افراد میں ٹھوس مدافعتی ردعمل پیدا ہوا جبکہ کوئی سنگین مضر اثرات بھی سامنے نہیں آئے۔

ویسے تو تیکنیکی طور پر یہ ویکسین ابھی دوسرے مرحلے کے ٹرائل میں ہے مگر اسے چین میں لوگوں کو استعمال کرانے کی محدود اجازت جون میں مل تھی۔

یہ اجازت صرف چینی فوج کے لیے ملی تھی جس کا دورانیہ ایک سال ہوگا۔

گامیلا نیشنل سینٹر

روسی تحقیقی مرکز کی یہ ویکسین عام نزلہ زکام کے ایڈنو وائرس کے کمزور ورژن پر انحصار کررہی ہے اور لوگوں کو اس کے 2 ڈوز کی ضرورت ہوگی۔

اس کے کلینیکل ٹرائلز کا ڈیٹا تو اب تک شائع نہیں ہوا مگر روس نے اسے دنیا کی پہلی کورونا ویکسین کے طور پر متعارف کرادیا۔

تبصرے (0) بند ہیں