وطن کے جوانوں کا جوش بڑھانے والی نورجہاں کو گزرے 2 دہائیاں بیت گئیں

اپ ڈیٹ 23 دسمبر 2020
خوبصورت آواز کی وجہ سے انہیں ملکہ ترنم کا خطاب دیا گیا—فائل فوٹو: فیس بک
خوبصورت آواز کی وجہ سے انہیں ملکہ ترنم کا خطاب دیا گیا—فائل فوٹو: فیس بک

'اے وطن کے سجیلے جوانو'، 'ہر لحظہ مومن'، 'مجھ سے پہلی سی محبت میرے محبوب نہ مانگ'، 'میری زندگی ایک نغمہ' اور 'آجا میری برباد بانہوں میں' سمیت اس طرح کے درجنوں لازوال گیت گانے والی ملکہ ترنم نورجہاں کو گزرے 20 برس ہوگئے۔

نور جہاں کو کانوں میں رس گھولتی آواز کی وجہ سے ملکہ ترنم کا خطاب دیا گیا اور انہوں نے اپنے 5 دہائیوں سے زائد عرصے پر پھیلے کیریئر میں 10 ہزار کے قریب گیتوں اور نغموں میں سر بکھیرے۔

ملکہ ترنم نور جہاں 21 ستمبر 1926 کو متحدہ ہندوستان میں حالیہ پاکستانی صوبے پنجاب کے شہر قصور میں پیدا ہوئیں، ان کا اصل نام اللہ وسائی جبکہ نور جہاں ان کا فلمی نام تھا۔

انہوں نے اپنے فنی کریئر کا آغاز 1935 میں 'پنڈ دی کڑی' سے کیا جبکہ قیام پاکستان کے بعد وہ اپنے شوہر شوکت حسین رضوی کے ہمراہ ممبئی سے کراچی شفٹ ہوگئیں۔

یہ بھی پڑھیں: 'بھئی یہ غزل تو ہم نے نور جہاں کو دے دی ہے'

کم عمری میں شادی کرنے کے باعث وہ متحدہ ہندوستان میں اس وقت ممبئی منتقل ہوگئی تھی تاہم قیام پاکستان کے بعد واپس آگئیں۔

ملکہ ترنم کی استاد نصرت فتح علی اور حالیہ وزیر اعظم عمران خان کے ساتھ یادگار تصویر—فوٹو: فیس بک
ملکہ ترنم کی استاد نصرت فتح علی اور حالیہ وزیر اعظم عمران خان کے ساتھ یادگار تصویر—فوٹو: فیس بک

1965 کی جنگ میں انہوں نے میرے ڈھول سپاہیا، اے وطن کے سجیلے جوانوں، ایہہ پتر ہٹاں تے نئی وکدے، او ماہی چھیل چھبیلا، یہ ہواؤں کے مسافر، رنگ لائے گا شہیدوں کا لہو، میرا سوہنا شہر قصورنیں سمیت بے شمار ملی نغمے گا کر قوم اور فوج کے جوش و ولولہ میں اضافہ کیا۔

نور جہاں نے مجموعی طور پر 10 ہزار سے زائد غزلیں و گیت گائے جن میں ان کا سب سے پہلا گانا مجھ سے پہلی سی محبت میرے محبوب نہ مانگ بے پناہ ہٹ ہوا جس نے ملکہ ترنم کو کامیابیوں کے نئے سفر پر گامزن کر دیا۔

نور جہاں بیک وقت گلوکارہ بھی تھیں اور صفِ اول کی اداکارہ بھی، ان کی تمام پنجابی فلمیں کلکتہ میں تیار کی گئی تھیں جبکہ 1938 میں وہ لاہور منتقل ہو گئیں، 1931 میں انہوں نے 11 خاموش فلموں میں بھی کام کیا۔

مزید پڑھیں: نور جہاں کے گھر کو میوزیم میں تبدیل کیا جانا چاہیے، شان شاہد

میڈم نے بطور چائلڈ سٹار جن فلموں میں کام کیا ان میں ’ہیر سیال‘، ’گل بکائولی‘ اور ’سسی پنوں‘ شامل ہیں جبکہ بطور ہیروئن انہوں نے بہت سی فلموں میں اپنے فن کا جادو بکھیرا جن میں نوکر (1943)، نادان (1943)، دوست (1944)، لال حویلی (1944)، مرزا غالب (1961)، نوراں (1957)، کوئل (1959)، پردیسن (1959)، نیند (1959)، انارکلی (1958) یملا جٹ (1940)، چوہدری (1941) وغیرہ سمیت کئی اور فلمیں بھی شامل ہیں۔

ملکہ ترنم کی بولی وڈ لیجنڈری اداکار دلیپ کمار کے ساتھ جوانی کی یادگار تصویر—فوٹو: فیس بک
ملکہ ترنم کی بولی وڈ لیجنڈری اداکار دلیپ کمار کے ساتھ جوانی کی یادگار تصویر—فوٹو: فیس بک

1957 میں انہیں شاندار پرفارمنس کے باعث صدارتی ایوارڈ تمغہ امتیاز جب کہ 1965 میں تمغہ حسنِ کارکردگی سے نوازا گیا، علاوہ ازیں دیگر اعزازات بھی ان کے حصے میں آئے۔

دنیا بھر سے پذیرائی اور مقبولیت سمیٹنے والی نور جہاں کے نصیب میں ازدواجی زندگی کا سکھ نہیں تھا، ان کی پہلی شادی 1942 میں فلم ساز شوکت حسین رضوی سے ہوئی جن سے ان کے تین بچے ہوئے لیکن یہ شادی 1953 میں طلاق پر ختم ہوئی، اسی طرح وہ دوسری مرتبہ اعجاز درانی سے 1959 میں رشتہ ازدواج میں منسلک ہوئیں، جن سے بھی ان کی تین اولادیں ہوئیں تاہم اس رشتے کا اختتام بھی طلاق پر ہی ہوا۔

یہ بھی پڑھیں: لازوال خوبصورتی کی علامت ’نورجہاں‘ کو میک اپ آرٹسٹ کا خراج تحسین

ملکہ ترنم نور جہاں کو 1965 میں تمغہءِ حسنِ کارکردگی سے نوازا گیا اور کئی دیگر اعزازات بھی ان کے حصے میں آئے۔

سریلی آواز اور خداداد صلاحیتوں کی مالک 'ملکہءِ ترنم دل کے عارضے میں مبتلا ہو کر 23 دسمبر 2000 کو اس دارِ فانی سے کوچ کر گئیں۔

ملکہ ترنم کی برصغیر کی معروف گلوکارہ لتا منگیشکر کے ساتھ یادگار تصویر—فوٹو: فیس بک
ملکہ ترنم کی برصغیر کی معروف گلوکارہ لتا منگیشکر کے ساتھ یادگار تصویر—فوٹو: فیس بک

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں