اردو کے معروف شاعر ، ناول نگار اور نقاد شمس الرحمن فاروقی 85 سال کی عمر میں انتقال کرگئے۔

وہ کافی عرصے سے علیل تھے اور گزشتہ ماہ ہی کورونا وائرس کو شکست دینے میں کامیاب ہوئے تھے، ان کا انتقال 25 دسمبر کو الہ آباد میں ان کی رہائش گاہ میں ہوا

ہندوستان ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق شمس الرحمن فاروقی کے بھتیجے اور مصنف محمود فاروقی نے بتایا 'وہ الہ آباد میں اپنے گھر جانے پر اصرار کررہے تھے، ہم وہاں آج صبح ہی پہنچے اور وہاں پہنچنے کے آدھے گھنٹے بعد ان کا انتقال ہوگیا'۔

بھارت کا اعلیٰ سول اعزاز پدما شری حاصل کرنے والے شاعر کو کورونا وائرس کو شکست دینے کے بعد 23 نومبر کو دہلی کے ایک ہسپتال سے ڈسچارج کیا گیا تھا۔

محمود فاروقی کے مطابق 'مگر کورونا کے علاج کے دوران اسٹرائیڈز کے استعمال سے مختلف مسائل جیسے فنگل انفیکشن مائیکوسز کا سامنا ہوا تھا، جس سے ان کی حالت زیادہ بدتر ہوگئی تھی'۔

شمس الرحمن فاروقی کی نماز جنازہ اور تدفین الہ آباد کے ایک مقامی قبرستان میں ہوئی۔

شمس الرحمن فاروقی کو ان کی زندگی میں جو شہرت اور مقبولیت ملی وہ بہت کم افراد کو حاصل ہوتی ہے۔

شمس الرحمن فاروقی کی پیدائش 30 ستمبر 1935 کو اتر پردیش کے ضلع اعظم گڑھ میں ہوئی اور الہ آباد یونیورسٹی سے انگریزی ادب میں ایم کی ڈگری حاصل کی۔

انڈین پوسٹل سروسز میں ملازمت کی اور یو پی کے چیف پوسٹ ماسٹر جنرل کے عہدے سے سبکدوش ہوئے۔

انہوں نے تنقید نگاری سے اردو ادب میں اپنے سفر کا آغاز کیا تھا اور الہ آباد سے ادبی ماہنامے 'شب خون' کا اجرا کیا اور 40 سال تک اس کے مدیر رہے۔

مقبول شاعر میر تقی میر کے بارے میں ان کی کتاب 'شعر شعور انگیز' 4 جلدوں میں شائع ہوئی اور اس پر انہیں 1996 میں سر وتی سمان ادبی ایوارڈ بھی ملا۔

انہوں نے 3 درجن سے زائد کتابیں، سیکڑوں مقالے اور مضامین تحریر کیے جبکہ ان کا پہلا ناول 'کئی چاند تھے سر آسماں' 2006 میں شائع ہوا تھا جو بہت زیادہ مقبول ہوا۔

اس ناول کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔

اس کے علاوہ تفہیم غالب ، تعبیر کی شرح ، انداز گفتگو کیا ہے ، اردو کا ابتدائی زمانہ ، درس بلاغت ، اردو غزل ، اشارات و نفی ، تنقیدی افکار ، خورشید کا سامان سفر، لغات روزہ مرہ اور تضمین اللغات شمس الرحمان فاروقی کی مشہور ترین تخلیقات میں شامل ہیں۔

تبصرے (0) بند ہیں