میرِ کارواں ہے محمد علی جناحؒ!

اپ ڈیٹ 25 دسمبر 2020
’’علم تلوار سے بھی زیادہ طاقتور ہے، اپنے آپ کو ناقابلِ شکست بنانا ہے تو اپنے ملک میں تعلیم کو عام کریں‘‘ قائد اعظم— اے ایف پی
’’علم تلوار سے بھی زیادہ طاقتور ہے، اپنے آپ کو ناقابلِ شکست بنانا ہے تو اپنے ملک میں تعلیم کو عام کریں‘‘ قائد اعظم— اے ایف پی

قائدِاعظم محمد علی جناحؒ۔ ایک ایسی ہمہ جہت شخصیت ہیں، جنہوں نے بہت محدود وقت میں نہ صرف دنیا کے نقشے پر ایک نیا ملک ابھارا بلکہ ایک نئی قوم تشکیل دی۔ ظلم کی چکی میں پستے مسلمانوں کے لیے ایک جغرافیائی خطے کا حصول ممکن بنایا، جہاں وہ آزادی سے سر اٹھا کر جی سکیں۔

آج کی تاریخ کے تناظر میں اگر دیکھیں تو ہم بانئ پاکستان کا یومِ پیدائش منا رہے ہیں۔ خبروں میں سرخی لگی ہوگی کہ ’’بانئ پاکستان کا یومِ پیدائش قومی جوش و جذبے سے منایا گیا‘‘۔

جوش کے تو بہرحال کیا کہنے کہ من حیث القوم ہم بلاشبہ ایک جوشیلی و جذباتی قوم واقع ہوئے ہیں۔ میں ہر سال آج کے دن ایک ہی بات سوچتی ہوں کہ یومِ قائد کے نام پر لوگوں کو اکٹھا کر کے ایک تقریب منعقد کر لینا، وہاں قائد کے قصیدے سے آغاز اور اختتام کر کے زبانی جمع خرچ کے بعد اپنے اپنے دھندوں میں مشغول ہو جانا، کیا یہی یومِ قائد کی اصل روح ہے؟

وہی لگے بندھے جملے، وہی پرانی باتوں کی تکرار، گویا گزشتہ 69 برسوں کا بس یہی اثاثہ ہے! گو کہ روایتی تجدید میں کچھ ایسا مضائقہ بھی نہیں اور یقیناً زندہ قومیں اپنا ماضی کبھی فراموش نہیں کرتیں مگر زندہ قومیں اپنے ماضی سے سبق سیکھ کر آگے بڑھا کرتی ہیں۔

پڑھیے: قائد اعظم کا یوم پیدائش

شاید یومِ قائد کا بس یہی کردار باقی رہ گیا ہے ہماری زندگی میں کہ ہم سال میں اس دن انہیں یاد کریں، ان کے فرمودات سوشل میڈیا پر شیئر کریں اور باقی 364 دن ایمان، اتحاد اور تنظیم کو طاق پر رکھ کر اپنا چلن رواں رکھیں۔

پر میرِ کارواں محمد علی جناح!

چلیں ناراض نہ ہوں آئیے ہم آج کے پاکستان اور قائدِ اعظم کے نظریے میں ربط تلاش کرتے ہیں۔ میرے جیسے دماغی خلل کے مارے ہوئے لوگ جو قائد کی 11 اگست کی تقریر کو سینے سے لگائے قومی پرچم میں موجود سفید رنگ کی اہمیت کو اجاگر کرنے میں وقت ضائع کرتے ہیں۔

جبکہ وطنِ عزیز میں مذہبی انتہا پسندی اپنے عروج پر ہے اور اس سے زیادہ خطرناک یہ طرزِ فکر کہ جو آپ کے عقیدے، مسلک یا مکتبہ فکر سے اختلاف رکھے اسے زندہ رہنے کا کوئی حق نہیں۔

پر میرِکارواں ہے محمد علی جناح!

وطنِ عزیز میں دوسرا بڑا عفریت کرپشن سمجھا جاتا ہے تاہم یہ سوال ہنوز اہمیت کا حامل ہے کہ ہمیں زیادہ نقصان مالی کرپشن (monetary corruption) نے پہنچایا یا ذہنی کرپشن (intellectual corruption) نے؟

وطنِ عزیز میں جہاں کابینہ کے اجلاس میں قائدِ اعظم چائے یا کافی پیش کرنے پر معترض تھے اب وہاں اربوں روپے کی کرپشن بھی نہ دامن پر کوئی چھینٹ لاتی ہے نہ خنجر پر کوئی داغ۔ شاعر سے معذرت کے ساتھ ’’تم کرپشن کرو ہو کہ کرامات کرو ہو‘‘۔

پڑھیے: قائداعظم: ہندو رہنما بھی ان سے متاثر تھے

پر میرِ کارواں ہے محمد علی جناح!

لگے ہاتھوں کچھ ذکرِ خیر ہو جائے ’’اُم المسائل‘‘ یعنی تعلیمی پسماندگی کا۔ قائد نے فرمایا ’’آپ تعلیم پر پورا دھیان دیں۔ اپنے آپ کو عمل کے لیے تیار کریں۔ یہ آپ کا پہلا فریضہ ہے۔ ہماری قوم کے لیے تعلیم زندگی اور موت کا مسئلہ ہے۔‘‘

ایک دوسرے مقام پر قائد نے فرمایا، ’’علم تلوار سے بھی زیادہ طاقتور ہے، اپنے آپ کو ناقابلِ شکست بنانا ہے تو اپنے ملک میں تعلیم کو عام کریں‘‘۔ ہم آج بھی اس فرمان کے برسوں گزر جانے بعد بھی تعلیم کا حق مانگنے پر بچی کو گولی مار دیتے ہیں اور جب وہ صحتیاب ہو کر اپنے عزم کا اعادہ کرتے ہوئے کہتی ہے کہ ’’ایک قلم، ایک کتاب اور ایک استاد اس دنیا کی تقدیر بدل سکتے ہیں۔‘‘ تو وہ بچی ایجنٹ قرار پاتی ہے۔

پر میرِ کارواں ہے محمد علی جناح!

ان تمام حقائق کے باوجود امید افزاء بات یہ ہے کہ میرے اور میرے بے شمار ہم وطنوں کے اندر امید کی کرن ماند نہیں پڑی۔ مجھے نگارِ صبح وطن بہت دور نہیں دکھتی۔

دہشتگردی کا ٹوٹتا ہوا زور مجھے ایک روشن پاکستان کا رخ دکھاتا ہے۔ تیزی سے تکمیل کی جانب گامزن سی پیک مجھے ابھرتا ہوا ترقی یافتہ پاکستان دکھاتا ہے۔

مجھے وہ دن بہت دور نہیں دکھتا جب میرے پیارے وطن میں کھیلوں کے بین الاقوامی میعار کے اسٹیڈیم پھر سے آباد ہوں گے اور میرے بچے وہاں بلاخوف و خطر دنیا بھر کی ٹیموں کے ساتھ کھیلیں گے.

پڑھیے: قصہ قائد کے لباس کا

مجھے اپنی نئی نسل سے بہت امیدیں وابستہ ہیں، یہ معصوم روشن چہرے، یہ جگمگاتی پُرنور آنکھیں مجھے ہر دن اپنی ذمہ داری کا احساس دلاتے ہیں۔ مجھے بتاتے ہیں کہ ان ننھے ہاتھوں میں مشعلِ امیدِ نو کو اپنے حصے کی شمع جلا کر ہی دینی ہے۔ یہی چراغ جلیں گے تو روشنی ہو گی۔

کیونکہ میں جانتی ہوں کہ میرِکارواں ہے محمد علی جناح!

موج بڑھے یا آندھی آئے، دیا جلائے رکھنا ہے

گھر کی خاطر سو دکھ جھیلے، گھر تو آخر اپنا ہے

تبصرے (0) بند ہیں