سیکڑوں پولیس اہلکار، بار انتخابات کے بعد ہوائی فائرنگ کرنے والے ملزمان پکڑنے میں ناکام

18 جنوری 2021
وکلا کو واضح طور پر بتادیا گیا تھا کہ ہتھیاروں کی نمائش اور ہوائی فانرنگ پر پابندی عائد ہے—فائل فوٹو: وائٹ اسٹار
وکلا کو واضح طور پر بتادیا گیا تھا کہ ہتھیاروں کی نمائش اور ہوائی فانرنگ پر پابندی عائد ہے—فائل فوٹو: وائٹ اسٹار

فیصل آباد میں ڈسٹرکٹ بار کے انتخابات کے بعد ہوائی فائرنگ میں ملوث ملزمان کی گرفتاری کے لیے 600 پولیس اہلکاروں کو ٹاسک سونپا گیا تھا تاہم ابھی تک کوئی کارروائی عمل میں نہیں لائی گئی۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق ہفتے کو الیکشنز میں کامیابی حاصل کرنے والوں کی حمایت کرنے والے افراد نے پولیس کی موجودگی کے باوجود غیر قانونی طور پر ہوائی فائرنگ کی جبکہ پولیس ملزمان کو گرفتار کرنے کے بجائے خاموش تماشائی بنی رہی، مذکورہ واقعے کی ویڈیوز بھی سوشل میڈیا پر شیئر کی گئی تھیں۔

واضح رہے کہ ابتدائی طور پر بار کے انتخابات 9 جنوری کو ہوتے تھے تاہم بائیو میٹرک سسٹم میں کچھ تکنیکی وجوہات کے باعث پنجاب بار کونسل کی ہدایات پر انہیں مؤخر کردیا گیا تھا، بعد ازاں ہفتے کو بار انتخابات منعقد کیے گئے تھے۔

یہ بھی پڑھیں: ’بار سیاست‘ میں وکلا کی فائرنگ کی خطرناک روایت، مقدمات درج

ادھر پولیس ریکارڈ کے مطابق پولیس کے 4 سپرنٹنڈنٹس، 8 ڈپٹی سپرنٹنڈنٹس، 7 انسپکٹرز، 40 سب انسپکٹرز، 59 اسسٹنٹ سب انسپکٹرز اور 500 سے زیادہ پولیس اہلکار انتخابات کے دوران امن و امان برقرار رکھنے کے لیے تعینات کیے گئے تھے۔

اس کے علاوہ اسپیشل پولیس فورس کو بھی اسٹینڈ بائی پر رکھا گیا تھا تا کہ کسی بھی ناخوشگوار صورتحال سے نمٹا جاسکے جبکہ ایلیٹ اور ڈولفن فورسز کو پولیس اسٹیشن کے اطراف گشت پر مامور کیا گیا تھا۔

دوسری جانب وکلا کو واضح طور پر بتادیا گیا تھا کہ ہتھیاروں کی نمائش اور ہوائی فانرنگ پر پابندی عائد ہے۔

تاہم فائرنگ کے واقعے کے بعد کوتوالی ہولیس نے 2 مقدمات درج کیے، پہلا مقدمہ سب انسپکٹر عثمان علی کی مدعیت میں درج کیا گیا جن کا کہنا تھا کہ انہیں اطلاع ملی تھی کہ کچھ لوگ علامہ اقبال، تنویر رندھاوا اور افتخار لا عمارتوں کی چھت پر چڑھ کر ہوائی فائرنگ کررہے ہیں۔

مزید پڑھیں: لاہور: وکلا کا امراض قلب کے ہسپتال پر دھاوا، 3 مریض جاں بحق

تاہم مدعی کے مطابق اندھیرے کا فائدہ اٹھا کر ملزمان فرار ہونے میں کامیاب رہے۔

دوسرا مقدمہ اسسٹنٹ سپ انسپکٹر محمد امتیاز شفقت نے نامعلوم ملزمان کے خلاف درج کروایا۔

دونوں مقدمات تعزیرات پاکستان کی دفعہ 148، 149، 337-ایچ-2 اور پنجاب آرمز امینڈمنٹ آرڈیننس 2015 کی دفعہ 11-بی کے تحت ایک گھنٹے کے وقفے سے درج کیے گئے۔

ایک پولیس اہلکار کا کہنا تھا کہ ان دونوں مقدمات کے اندراج سے پولیس حکام نے گشت اور نگرانی کاخراب نظام اور اپنی کمزوریاں ظاہر کی ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: قصور: طالبعلم پر 'تشدد' کرنے پر ایس ایچ او سمیت 4 اہلکاروں کے خلاف مقدمہ درج

عمومی طور پر پولیس فورس کو کسی بڑے واقعے کے بعد جائے حادثہ کو محفوظ بنانے اور شواہد اکٹھے کرنے کے لیے تعینات کیا جاتا ہے لیکن ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ان کیسز میں ملزمان کو دوبارہ ہوائی فائرنگ کرنے کی کھلی چھٹی دی گئی باجود اس کے کہ ایک گھنٹہ قبل ہی اس فعل کے خلاف ایک مقدمہ درج کیا جاچکا تھا۔

انہوں نے تجویز دی کہ اس کی ضلعی انکوائری ہونی چاہیے کہ بار انتخابات کے سلسلے میں تعینات سیکڑوں پولیس اہلکار کسی بندوق بردار شخص کو گرفتار کرنےمیں کیوں ناکام رہے جس نے ہوا میں فائر کیے۔


یہ خبر 18 جنوری 2020 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی۔

تبصرے (0) بند ہیں