فائل فوٹو --.
فائل فوٹو --.

ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں اسکول نہ جانے والے بچوں کی تعداد پچیس ملین تک چلی گئی ہے-

تین سال پہلے آئین میں آرٹیکل 25 (a ) کی شمولیت کے ذریعہ ریاست نے اس بات کی تصدیق کی تھی کہ مفت اور لازمی تعلیم پانچ سے سولہ سال تک کے بچوں کا حق ہے-

تمام حصّوں سے ملک کے بچوں کے لئے سوسائٹی کا مطالبہ اہمیت کا حامل ہے- لیکن آرٹیکل 25 (a) کے اطلاق پر بہت کم ہی اقدامات کیے گۓ ہیں-

اس آرٹیکل کے اطلاق کے لئے تمام صوبوں اور دارلحکومت اسلام آباد کی طرف سے ضروری قانون یا تو بناۓ ہی نہیں گۓ یا پھر یہ اتنے مؤثر نہیں ہیں-

ملک کے 35 فیصد سے زائد بچے پرائیویٹ اسکولوں میں تعلیم حاصل کر رہے ہیں- شہری علاقوں میں اس تناسب میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے، اور بڑے شہروں میں تو ایسا ظاہر ہے کہ بچوں کی اکثریت پرائیویٹ اسکولوں میں تعلیم حاصل کر رہی ہے-

اس کے باوجود، پاکستان بھر کے سیاسی منظر نامے میں نجی تعلیم کے کردار کا کوئی تصور نہیں خصوصاً آرٹیکل 25 (a) کے تحت-

اس بات کی تمام سیاسی جماعتوں نے تصدیق کی ہے کہ ملک کے تمام بچوں کو تعلیم کی فراہمی ریاست کی ذمہ داری ہے- لیکن اس کے ساتھ ہی وہ سب یہ بھی کہتے نظر آتے ہیں کہ وہ نجی سیکٹر کی 'اپنا کردار' ادا کرنے کے لئے حوصلہ افزائی کرنا چاہتے ہیں-

واضح طور پر، پرائیویٹ شعبےکا تعلیم کی فراہمی میں اہم کردار ہے یا نہیں،یہ سوال ارادتاً یا غفلتاً پہلے ہی طے کیا چکا ہے- آج جب کہ کم و بیش 35 فیصد بچے نجی اسکولوں میں تعلیم حاصل کر 24رہے ہیں اور نجی اسکولوں کی پیداوار پبلک اسکولوں سے زیادہ ہے, نظریاتی موقف سے قطع نظر یہ سوال اٹھانا فضول ہے-

لیکن اصل مسئلہ وہیں ہے- پبلک اور پرائیویٹ اسکولوں کے درمیان کیا توازن رکھا گیا ہے؟ اور زیادہ اہم بات، ہم 'مفت' اور 'لازمی' تعلیم کے لئے ریاست کے 'وعدہ' کے بارے میں کیا کیا جاۓ؟

اگر دیکھا جاۓ توپرائیویٹ سیکٹر کی طرف سے فراہم کی جانے والی تعلیم کے حوالے سے ہمارا رویہ مختلف ہے- زیادہ تر لوگ جو اپنے بچوں کو پرائیویٹ اسکولوں میں بھیجنے کے متحمل ہو سکتے ہیں اس بات کی شکایت کرتے نظر آتے ہیں کہ نجی سیکٹر میں تعلیم صرف پیسا کمانے ذریعہ ہے، خصوصاً اعلیٰ پرائیویٹ تعلیمی سیکٹر میں، چارجز بہت زیادہ ہیں اور نصاب کے حوالے سے کوئی ضابطہ نہیں ہے، وغیرہ وغیرہ-

جب پرائیویٹ تعلیمی سیکٹر کا کردار تسلیم کرنے کی باری آتی ہے تو تھوڑی بے اطمینانی پائی جاتی ہے لیکن اس کے ساتھ ہی پبلک سیکٹر کے ناقص معیار تعلیم کی وجہ سےپرائیویٹ تعلیمی سیکٹر کی طلب زیادہ ہے-

کم و بیش یہی رویہ سیاسی جماعتوں اور بیوروکریسی میں بھی موجود ہے- اکثر و بیشتر، سیاسی جماعتیں یہ بھی کہتی نظر آتی ہیں کہ تعلیمی سیکٹر کی حوصلہ شکنی نہیں کرنا چاہتیں لیکن اسی بیچ وہ یہ بھی تسلیم کر رہے ہوتے ہیں کہ تعلیم کی فراہمی کی ذمہ داری ریاست کی ہے-

اس صورتحال سے نمٹنے کا مروجہ راستہ اس بات کو تسلیم کرنا ہے کہ اگرچہ ریاست، تعلیم کے لئے ذمہ دار ہے لیکن یہ ضروری نہیں ہے کہ ریاست، ریاستی اداروں کے ذریعہ تعلیم فراہم کرے- ریاست پرائیویٹ سیکٹر کو اسکولوں کے انتظام کے لئے معاوضہ ادا کر سکتی ہے- یا پھر، اکثر و بیشتر یہ بھی کہا جاتا ہے کہ، بنیادی تعلیم کا حق منظور کرنے کے باوجود ریاست کے اتنے وسائل نہیں ہیں کہ سب کے لئے معیاری تعلیم کے حصول کو یقینی بنانے کے لئے پبلک ایجوکیشن سسٹم کو پھیلا سکے، چناچہ ضرورت ہے پرائیویٹ سیکٹر کی کہ وہ آگے بڑھے اور اس ذمہ داری کا بوجھ اٹھاۓ-

لیکن مشکل اس کے بعد شروع ہوتی ہے-

اس حوالے سے نہ تو سیاسی جماعتیں اور نا ہی حکومت کے پاس کوئی آئیڈیا ہے کہ ان دونوں سیکٹروں کی کس طرح نشو نما اور ترقی کی جاۓ تاکہ تمام بچوں کی معیاری تعلیم کو یقینی بنایا جاسکے- دونوں کے کردار کے حوالے سے سواۓ عمومی بیانات کے کوئی حتمی اعلان نہیں کیا گیا ہے-

پرائیویٹ سیکٹر ان علاقوں میں کام کرتا ہے جہاں مؤثر طلب موجود ہے، یعنی جہاں والدین معاوضہ ادا کر سکتے ہیں- کم فیس والے پرائیویٹ سیکٹر میں بھی، جن کی خدمات کے لئے معاوضہ ٹیوشن فیس کی شکل میں ادا کیا جاتا ہے، آخرالذکر کو اتنا زیادہ رکھنا پڑتا ہے کہ تعلیمی فراہمی کے اخراجات پورے کیے جا سکیں- معیار میں فرق ہو سکتا ہے، اور ہوتا بھی ہے- لیکن پرائیویٹ سیکٹر مفت کام نہیں کر سکتا-

ملک میں موجودہ غربت کی سطح، اور آئندہ چند سالوں میں ترقی کے رجحان کے پیش نظر، بچوں کے ایک بڑا تناسب کے لئے تعلیم مراعات حاصل ہونا ضروری ہے- یہ ایک حقیقت ہے-

سوال یہ ہے کہ یہ مراعات دی کیسے جاۓ؟ کیا ہم یہ مفت پبلک اسکول کے ذریعہ کریں گے یا ریاست پرائیویٹ اسکولوں میں داخلے کے لئے امداد (واؤچر، یا فیس میں چھوٹ وغیرہ کے ذریعہ) کرے گی؟ کیا اسکی ادائیگی سوسائٹی کو (ریاست کے تحت) ٹیکسز کے ذریعہ کرنا ہوگی یا ہمیں ریاست کو نظر انداز کر کے، خدمات خلق کے پرائیویٹ ذارئع استعمال کرنا ہونگے؟

یہ دیکھتے ہوۓ کہ بچوں کی جس تعداد کی بات ہم کر رہے ہیں وہ ملین میں ہے، ہمیں شاید ان تمام تدابیر کو استعمال کرنا ہوگا- لیکن ان سب کے لئے اچھی طرح غورو غوض کرنا ہوگا اور مناسب تصور قائم کرنا ہوگا-

ایک بہتر پالیسی بنانے کے لئے ہمیں سوسائٹی سے لے کر صوبائی حکومتوں اور پارٹی لائنز تک اتفاق راۓ کی ضرورت ہوگی-

فی الحال حکومت اور سیاسی جماعتوں میں اس مسئلہ کے حوالے سے شعور اور / یا قبولیت بہت کم ہے- پرائیویٹ سیکٹر کا رویہ اپنی سرگرمیوں کی نگرانی کے لئے حکومت کے کردار کے حوالے سے عام طور پر مدافعانہ ہوتا ہے- اور یہ ٹھیک بھی ہے، ریاستی اداروں کی بدعنوانی اور نااہلی کی وجہ سے، پرائیویٹ سیکٹر ان کی مداخلت سے ڈرتے ہیں- ریاستی سیکٹر یہی سوچتا ہے کہ پرائیویٹ سیکٹر 'لالچی' اور 'منافع خور' ہیں-

ان سب کے باوجود،ایک احساس یہ بھی ہے کہ اگر ہم نے تمام بچوں کو تعلیم دلانے کے وعدے پر عمل کرنا ہے تو دونوں سیکٹروں کو مل کر کام کرنا ہوگا جس کا تصور آئین میں موجود ہے- لیکن اس کے لئے بہت زیادہ محنت کی ضرورت ہے خصوصاً ریاست اور مرکزی سیاسی جماعتوں کی طرف سے- فی الحال نعروں سے آگے اب تک کچھ نہیں کیا گیا- اگر ہم آرٹیکل 25 (a) کے اطلاق پر سنجیدہ ہیں، تو اس کے لئے جلد کام شروع کرنا ہوگا-


ترجمہ: ناہید اسرار

تبصرے (0) بند ہیں