آسٹریلیا نے میانمار کے ساتھ دفاعی تعلقات معطل کردیے

اپ ڈیٹ 08 مارچ 2021
آسٹریلیا روہنگیا اور دیگر میانمار کی اقلیتوں کیلئے فوری طور پر انسانی ضروریات کو پورا کرنے کی کوشش کرے گا، آسٹریلوی وزیر خارجہ - فائل فوٹو:اے ایف پی
آسٹریلیا روہنگیا اور دیگر میانمار کی اقلیتوں کیلئے فوری طور پر انسانی ضروریات کو پورا کرنے کی کوشش کرے گا، آسٹریلوی وزیر خارجہ - فائل فوٹو:اے ایف پی

میانمار میں گزشتہ ماہ حکومت کے خلاف بغاوت پر بڑے پیمانے پر مظاہروں کے خلاف ملک کی فوج کی طرف سے سخت کریک ڈاؤن کے دوران آسٹریلوی وزیر خارجہ امور ماریس پینے نے کہا ہے کہ آسٹریلیا نے میانمار کے ساتھ اپنے دفاعی تعاون کے پروگرام کو معطل کر دیا ہے۔

غیر ملکی خبر رساں ادارے رائٹرز کی رپورٹ کے مطابق انہوں نے ایک بیان میں کہا کہ آسٹریلیا روہنگیا اور دیگر میانمار کی اقلیتوں کے لیے فوری طور پر انسانی ضروریات کو پورا کرنے کی کوشش بھی کرے گا۔

ماریس پینے نے کہا کہ 'ہم سب سے زیادہ دباؤ کا شکار انسانیت سوز اور ابھرتی ہوئی ضرورتوں کو ترجیح دیں گے اور یہ یقینی بنانا چاہیں گے کہ ہماری انسان دوستی کے ساتھ مشغولیت حکومتی یا حکومت سے وابستہ اداروں کے ساتھ نہیں بلکہ غیر سرکاری تنظیموں کے ساتھ ہو اور اس کے ذریعے ہو'۔

مزید پڑھیں: میانمار: آنگ سان سوچی کے خلاف عدالت میں سماعت، نئے الزامات عائد

میانمار کی فوج کے ساتھ آسٹریلیا کے دو طرفہ دفاعی تعلقات غیر جنگی شعبوں جیسے انگریزی زبان کی تربیت تک ہی محدود ہیں۔

حکام نے بتایا کہ کینبرا میانمار کی رہنما آنگ سان سوچی کے مشیر شان ٹورنیل کی فوری رہائی کا مطالبہ بھی کرے گا۔

یکم فروری کو میانمار کی منتخب حکومت کا تختہ پلٹنے والی بغاوت کے بعد شان ٹورنیل کو محدود قونصلر رسائی کے ساتھ حراست میں لے لیا گیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: میانمار: فوجی حکومت کے خلاف احتجاج، پولیس کی فائرنگ سے مزید 38 افراد ہلاک

ہفتے کے آخر میں آسٹریلیا کے سب سے بڑے شہر سڈنی میں سیکڑوں افراد جمع ہوئے تھے جنہوں نے آسٹریلیائی حکومت سے بغاوت کے خلاف سخت مؤقف اپنانے کی اپیل کی۔

واضح رہے کہ جنوب مشرقی ایشائی ملک فوج کا کنٹرول سنبھالنے اور منتخب رہنماؤں کو حراست میں لیے جانے کے بعد ہنگامہ آرائی کی لپیٹ میں ہے جہاں روزانہ احتجاجی مظاہرے منعقد کیے جاتے ہیں جس کے حوالے سے اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ 50 سے زیادہ افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔

ماریس پینے نے کہا کہ 'ہم میانمار کی سیکیورٹی فورسز سے پر زور اپیل کرتے ہیں کہ وہ تحمل کا مظاہرہ کریں اور عام شہریوں کے خلاف تشدد سے باز رہیں'۔

مزید پڑھیں: میانمار میں آمریت کے خلاف مظاہرے، دھرنے کے خاتمے کیلئے پولیس کا تشدد

خیال رہے کہ میانمار کے فوجی جرنیلوں نے رواں برس یکم فروری کو حکومت کا تختہ اُلٹتے ہوئے 75 سالہ آنگ سان سوچی سمیت نیشنل لیگ فار ڈیموکریسی کے درجنوں رہنماؤں کو گرفتار کر لیا تھا۔

جرنیلوں نے اس اقدام کا دفاع کرتے ہوئے اس کی وجہ پچھلے سال نومبر میں ہوئے انتخابات میں دھاندلی کو قرار دیا جہاں مذکورہ انتخابات میں نیشنل لیگ فار ڈیموکریسی نے کلین سوئپ فتح حاصل کی تھی۔

میانمار میں فوج نے کئی دہائیوں تک حکومت کی لیکن ایک دہائی قبل عوامی حکومت کو اقتدار سنبھالنے کا موقع دیا۔

فوجی حکومت میں زیادہ عرصہ تک نظربند رہنے والی اپوزیشن لیڈر آنگ سان سوچی کو ان کی کاوشوں پر امن کے نوبیل انعام سے نوازا گیا تھا۔

میانمار کے ایک انجینیئر کاوے زن تن نے ینگون میں احتجاج کرتے ہوئے کہا کہ ہم وہی خود محسوس کررہے ہیں جس کے سائے تلے ہم 1990 کی دہائی میں پلے بڑھے تھے۔

انہوں نے کہا کہ گزشتہ پانچ سالوں میں جمہوری حکومت میں یہ خوف ختم ہو گیا تھا لیکن اب اسی خوف نے دوبارہ جگہ لے لی ہے لہٰذا ہمیں اپنے مستقبل کے لیے اس فوجی حکومت کا خاتمہ کرنا ہو گا۔

تبصرے (0) بند ہیں