'میں اُس وقت ایک چھوٹی سی بچی تھی۔ میری ماں بڑے اہتمام کے ساتھ ’ورجلی‘ تیار کیا کرتی تھی۔ میری ماں کو بھی میں نے یہ کہتے سنا تھا کہ انہوں نے اپنی ماں کو یہ ذائقہ دار چاول تیار کرتے ہوئے دیکھا تھا‘، یہ کہنا ہے میری والدہ کا جنہوں نے 60ء کی دہائی میں اس دنیا میں آنکھ کھولی۔

وہ مزید کہتی ہیں کہ، 'جس روز شام کے وقت ورجلی کھانے کا اہتمام ہوتا، تو کھیتوں سے 7، 8 اقسام کا ساگ اکھٹا کرکے گھر لایا جاتا۔ جس میں سرسوں، پالک، اورے (ساگ کی ایک قسم جس کا اردو نام میرے علم میں نہیں)، ہرا لہسن، ہرا دھنیا، مولی اور شلجم کے ہرے پتوں کو کترا جاتا ہے اور اس کے ساتھ بیگمی چاول (یہ چاول کی ایک خاص قسم جو یوسفزئی پشتونوں کو بے حد پسند ہے) شامل کرکے ہانڈی چڑھائی جاتی۔

اس کے بعد دیسی گھی اور خالص دودھ اور ملائی کا بندوبست کیا جاتا۔ ایک بڑی سی قاب (تھال) میں اسے یوں پیش کیا جاتا کہ چاول کے ڈھیر کے اوپر دیسی گھی اور خالص دودھ کے لب ریز پیالے رکھے گئے ہوتے۔ خاندان کے سبھی افراد قاب کے گردا گرد بیٹھتے اور دیسی گھی اور دودھ سے چمچ بھر کر اپنے سامنے چاول پر ڈالتے اور مزے لے لے کر ورجلی تناول فرماتے۔‘

ہم زیریں سوات والے اس خاص پکوان کو ’ورجلی‘، بالائی سوات والے ’چوکانڑ‘، ضلع شانگلہ والے ’ساگونڑے‘، ضلع دیر والے ’مندرئی‘ یا ’شنے وریجے‘ (سبز چاول) جبکہ ضلع بونیر والے اسے ’غٹہ وریجہ‘ پکارتے ہیں۔

ورجلی، دیسی گھی، خالص دودھ اور ترکاری کا دسترخواں تیار ہے— تصویر امجد علی سحاب
ورجلی، دیسی گھی، خالص دودھ اور ترکاری کا دسترخواں تیار ہے— تصویر امجد علی سحاب

مختلف اقسام کے ساگ کی چھانٹی اور صفائی کا عمل جاری ہے— تصویر فضل خالق
مختلف اقسام کے ساگ کی چھانٹی اور صفائی کا عمل جاری ہے— تصویر فضل خالق

سوات کے سینئر صحافی فضل خالق صاحب بتاتے ہیں کہ 'ورجلی باقاعدہ طور پر چاول سے بنائی جانے والی ایک ڈش ہے۔ دنیا کے ہر علاقے کی اپنی ایک ثقافتی یا روایتی خوراک ضرور ہوتی ہے۔ سو ورجلی کو ہم بجا طور پر سوات کی اپنی روایتی خوراک یا کھانا کہہ سکتے ہیں'۔

ورجلی تیار کرنے کے حوالے سے فضل خالق مزید کہتے ہیں کہ 'اس میں سوات میں پیدا ہونے والا مختلف اقسام کا ساگ استعمال کیا جاتا ہے، جن میں یہاں کا شفتل، شلخے (اس کا اردو نام میرے علم میں نہیں)، پالک اور اوگکئی نامی ساگ قابلِ ذکر ہیں۔ مذکورہ ساگ کو نہایت باریکی سے کاٹ لیا جاتا ہے۔ اس عمل کے بعد ساگ کو چاول میں شامل کرکے ورجلی تیار کرنے کا عمل شروع ہوجاتا ہے'۔

راقم نے جب بھی پختونوں کی یہ روایتی خوراک کھائی ہے، تو اسے یہاں کے مخصوص ’بیگمی چاول‘ سے ہی تیار کردہ پایا ہے۔ فضل خالق صاحب کے بقول، ورجلی کے لیے ’بیگمی‘ ہی بہترین چاول ہے۔ اس کے علاوہ دوسری اقسام کے چاول میں بھی لوگ اسے تیار کرتے ہیں، مگر جو مزہ بیگمی چاول میں ہے، وہ کسی اور میں نہیں ہوسکتا۔

ورجلی تیار کرنے میں ماہر سمجھے جانے والے 50 سالہ محمد امین (مرحوم) جن کا تعلق سلام پور سے تھا، وہ ایک ویڈیو میں کہتے ہیں کہ ’ورجلی تیار کرنے کے لیے 3 سے 4 اقسام کے تازہ ساگ کی ضرورت ہوتی ہے۔ ورجلی پختونوں کا ایک ایسا کھانا ہے جسے ہم سوغات کے طور پر اپنے مہمانوں کو پیش کرتے ہیں۔ یہ کوئی عام پکوان نہیں ہے، اس لیے خاص لوگوں کی تواضع کی خاطر ہی اسے تیار کیا جاتا ہے'۔

ساگ کی چھانٹی کے بعد کاٹنے کا عمل جاری ہے—فضل خالق
ساگ کی چھانٹی کے بعد کاٹنے کا عمل جاری ہے—فضل خالق

لیجیے جی، ورجلی قاب میں ڈالنے کا وقت ہوا چاہتا ہے— تصویر امجد علی سحاب
لیجیے جی، ورجلی قاب میں ڈالنے کا وقت ہوا چاہتا ہے— تصویر امجد علی سحاب

محض 2 دہائی پہلے تک اہلِ سوات کی یہ روایت ہوا کرتی تھی کہ جب بھی ان کے ہاں کسی اور علاقے کے مہمان آتے تو ان کی خاطر تواضع ورجلی سے کی جاتی تھی۔ خود اہلِ سوات سردیوں میں اسے کھانے کا خاص اہتمام کرتے تھے۔

مجھ جیسے 80ء کی دہائی میں آنکھ کھولنے والے بہتر طور پر جانتے ہیں کہ ورجلی کے ساتھ رکھا گیا خالص گاڑھا دودھ، اس کے اوپر تہہ دار بالائی اور دیسی گھی تینوں مل کر کھانے کا مزہ ایسا دوبالا کردیتے تھے کہ آدمی انگلیاں چاٹنے پر مجبور ہوجاتا تھا۔ دودھ، بالائی اور دیسی گھی کے علاوہ لوگ ورجلی کے ساتھ دہی اور سالن بھی کھاتے ہیں مگر اول الذکر اشیا گویا اس کا مزہ دوبالا کرنے کے لیے لازم و ملزوم تصور کی جاتی ہیں۔

یہ بات مشہور ہے کہ یوسفزئی افغانستان سے اپنے ساتھ اس روایتی خوراک کو یہاں سوات لائے تھے مگر فضل خالق اس بات کی تردید کرتے ہیں۔ ان کے بقول 'یوسفزئی تو تھانہ میں بھی آباد ہیں، دیر میں بھی آباد ہیں، یہاں تک کہ مردان میں بھی آباد ہیں، لیکن سوات (ریاستِ سوات یعنی موجودہ سوات، شانگلہ اور بونیر) سے باہر یوسفزئیوں میں ورجلی کھانے کا رواج نہیں ہے۔ اس لیے ہم کہہ سکتے ہیں کہ یوسفزئیوں سے پہلے سوات میں آباد لوگوں کی یہ نسل در نسل منتقل ہونے والی خوراک ہے'۔

میرے ایک دوست نادر شاہ میاں کا تعلق فرحت آباد خوازہ خیلہ سے ہے۔ وہ پیشے کے لحاظ سے معلم ہیں اور مینگورہ کے ایک نجی تعلیمی ادارے میں اردو پڑھاتے ہیں۔ ان کے بقول 'ہم ورجلی کو اپنے گاؤں فرحت آباد میں ساگونڑے کہتے ہیں'۔ ان کے بقول خوازہ خیلہ میں بیشتر دیہات میں ورجلی کو اسی نام سے پکارا جاتا ہے۔

فضل خالق اس فہرست میں بونیر کے حوالے سے ایک اور نام کا بھی اضافہ کرتے ہیں۔ ان کے بقول 'ضلع بونیر میں لوگ اسے ورجلی کے ساتھ ساتھ 'غٹہ وریجہ' بھی کہتے ہیں‘۔ نیاز احمد خان بھی اپنی ایک ویڈیو رپورٹ میں اس بات پر مہرِ تصدیق ثبت کرتے ہیں۔

دسترخوان تیار ہے— امجد علی سحاب
دسترخوان تیار ہے— امجد علی سحاب

مقامی حجرے میں دوست ورجلی دعوت اُڑا رہے ہیں— فضل خالق
مقامی حجرے میں دوست ورجلی دعوت اُڑا رہے ہیں— فضل خالق

میری یا مجھ سے بڑی عمر کے قارئین یہ بات بخوبی جانتے ہوں گے کہ جب ہماری دادی کی عمر کی خواتین (خاص کر جو 2000ء یا 2005ء تک زندہ رہیں) کو کسی پر غصہ آتا تھا، تو وہ دل کا غبار نکالنے کے لیے ایک مخصوص بددعا دیا کرتی تھیں کہ 'خدائی دی چُکانڑ چُکانڑ کہ' اس بددعا کا مطلب سادہ الفاظ میں کچھ یوں ہے کہ خدا تمہیں تکلیف دہ موت دے یعنی ایک ایسی موت جس میں آدمی کے پُرزے اُڑ جائیں۔

اب یہاں یہ بات غور طلب ہے کہ جب 'چُکانڑ' لفظ صرف بالائی سوات میں رائج ہے، تو بددعا کے لیے یہ لفظ زیریں سوات میں کیسے رواج پاگیا؟ اس کے جواب میں مینگورہ شہر میں پیدا ہونے والے 45 سالہ ڈرائیور محمد ایوب کہتے ہیں کہ 'اللہ بخشے، میری والدہ کا تعلق شین فتح پور سے تھا، جو بالائی سوات کا علاقہ ہے۔ ہم ان کی جب بھی حکم عدولی کرتے یا کسی بات پر انہیں غصہ آجاتا تو بدلے میں یہ بددعا ’الکہ! خدائے دی چُکانڑ چُکانڑ کہ‘ ملتی'۔

بچے روایتی کھانا تناول فرما رہے ہیں— امجد علی سحاب
بچے روایتی کھانا تناول فرما رہے ہیں— امجد علی سحاب

اگر یوسفزئی پختونوں سے پہلے بھی ورجلی یہاں کی رائج شدہ خوراک تھی، تو اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ پکوان کب سے یہاں مروج ہے؟

فضل خالق اس حوالے سے کہتے ہیں کہ ’تاریخ سے یہ بات ثابت ہے کہ کوئی 3 ہزار سال قبل سوات کی سرزمین پر چاول کو بطورِ خوراک استعمال کیا گیا ہے۔ بدھ مت کا مطالعہ کرنے والے یہ جانتے ہیں کہ بدھ مت کے پیروکار سبزی خور ہیں۔ اس زمین پر روزِ اول سے سبزی اور ساگ ہی کاشت ہوتا چلا آیا ہے، اس لیے میرا ذاتی خیال ہے کہ ورجلی بدھ مت دور سے نسل در نسل منتقل ہونے والا ایک پکوان ہے‘۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (2) بند ہیں

ڈاکٹر محمد کاشف علی Apr 12, 2021 11:22am
امجد علی سحاب صاحب نے بڑی تفصیل کے ساتھ سوات کے ایک روائیتی کھانے کی معلومات بہم پہنچائی ہے، بہت خوب اور بہت "لذیذ" تحریر ہے۔
عطاءاللہ جان Apr 16, 2021 01:18am
شلخے کا اردو نام جنگلی پالک ، امبادتی ، امبراوتی ہےاورے کا مجھے بھی معلوم نہیں۔ آپ کا کالم دلچسپ بھی ہے اور معلوماتی بھی