19 فروری 2021ء سے پہلے ڈسکہ کوئی بہت مقبول جگہ نہیں تھی۔ پاکستان میں ہی رہنے والے کچھ لوگ تو ایسے بھی ہوں گے جنہیں ڈسکہ نامی کسی شہر کے وجود کا بھی علم نہیں ہوگا، لیکن 19 فروری کے ضمنی انتخاب نے اس شہر کو شہرت کی نئی بلندیوں پر پہنچا دیا اور بچہ بچہ ڈسکہ شہر کے نام سے واقف ہوچکا تھا۔

اس شہر کی وجہءِ شہرت پہلے کچھ بھی ہو مگر اب تو اسے اس بات سے یاد کیا جاتا ہے کہ یہاں 20 پریزائیڈنگ افسران دھند میں کھوگئے تھے اور ان کے موبائل فون نے بھی کام کرنا بند کردیا تھا۔ یوں تحقیق کا متقاضی ایک نیا سوال ابھر کر سامنے آیا ہے کہ دھند میں موبائل فون کام کرنا کیسے بند کردیتا ہے؟

اس کے ساتھ ساتھ 19 فروری کو امن و امان کی بدترین صورتحال کا بھی سامنا رہا۔ کھلے عام اسلحہ لہراتے موٹرسائیکل سوار شرپسندوں کی طرف سے فائرنگ اور 2 بے گناہ لوگوں کی قیمتی جانوں کے ضیاع نے اس شہر کو ایک سیاسی اور حقیقی دنگل میں تبدیل کردیا۔

بعدازاں الیکشن کمیشن کی طرف سے تمام حقائق کو سامنے رکھتے ہوئے ڈسکہ کے حلقہ این اے 75 میں دوبارہ انتخاب کروانے کا حکم دیا گیا۔ اس حکم کو پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) نے سپریم کورٹ میں چیلنج کیا لیکن عدالت عظمیٰ کی جانب سے بھی الیکشن کمیشن کے فیصلے کو برقرار رکھا گیا اور 10 اپریل کو یہاں دوبارہ ضمنی انتخاب کا فیصلہ کیا گیا۔

9 اپریل کو ہیڈ آفس کی طرف سے حکم صادر ہوا کہ ہم اپنی ٹیم کے ساتھ ڈسکہ کے لیے روانہ ہوجائیں۔ دل میں سوچا کہ ایک طرف مسلم لیگ (ن) کی نوشین افتخار اور پی ٹی آئی کے علی اسجد ملہی کے درمیان کانٹے دار مقابلے دیکھنے کو ملے گا تو دوسری طرف شاید ہمیں بھی نظر آجائے کہ دھند میں لوگ کیسے کھو جاتے ہیں لیکن موسم کی تبدیلی کے سبب اس بات کا امکان اب نہ ہونے کے برابر ہی تھا۔

رات کے 3 بجے ہم اپنے سینئر پروڈیوسر علی راؤ، پروڈیوسر محمد علی کیانی اور کیمرہ مین گل خان کے ہمراہ اسلام آباد سے براستہ جی ٹی روڈ ڈسکہ کے لیے روانہ ہوئے۔ یہ ممکن نہیں ہے کہ آپ جی ٹی روڈ پر سفر کریں، میاں جی ہوٹل سے گزر ہو اور آپ وہاں پیٹ پوجا کے لیے نہ رکیں۔ سو ہم نے صبح کا ناشتہ میاں جی ہوٹل پر کرنے کا فیصلہ کیا اور تھوڑی دیر کے لیے گاڑی ہی میں آنکھیں موندلیں۔

صبح 6 بجے دیسی گھی کے پراٹھے، چائے اور چنے کا ناشتہ کیا اور دوبارہ محو سفر ہوگئے۔ صبح کا اجالا ہوچکا تھا اس لیے راستے کے دائیں اور بائیں لہلاتے ہوئے کھیت کھلیان اور بَھٹّوں کی چمنیوں سے نکلتا ہوا دھواں آنکھوں کو بھلا معلوم ہو رہا تھا۔

میاں جی ہوٹل کے دیسی گھی سے بنے پراٹھے
میاں جی ہوٹل کے دیسی گھی سے بنے پراٹھے

جی ٹی روڈ کی مرکزی شاہراہ کو چھوڑ کر ہم وزیرآباد کی جانب مڑگئے۔ وزیرآباد جنکشن اور شہر کے وسط سے ہوتے ہوئے ہم تیزی سے ڈسکہ کی جانب رواں دواں تھے۔ ماضی میں کبھی سڑک کے دونوں اطراف درخت اور تاحدِ نگاہ سرسبز و شاداب کھیت ہی نظر آتے تھے لیکن اب تعمیراتی شعبے میں تیزی نے اس منظر کو محدود کردیا ہے۔ زرعی زمینوں پر کاشتکاری کی جگہ سوسائٹیاں، کالونیاں اور گودام اپنی جگہ بنا رہے ہیں۔

ان مناظر کو دیکھتے دیکھتے ہم 8 بجے ڈسکہ پہنچ گئے۔ یہاں پہنچ کر ایسا لگا جیسے کسی چھاؤنی میں داخل ہوگئے ہیں۔ سیکیورٹی کے انتہائی سخت انتظامات کیے گئے تھے۔ پولیس اور رینجرز کی نفری کے ساتھ ساتھ ٹریفک پولیس بھی نظر آئی۔ شہر میں کافی گہما گہمی تھی۔ عام طور پر ضمنی انتخاب میں اتنی زیادہ گہما گہمی کم ہی دیکھنے کو ملتی ہے۔ یہاں پہنچے تو معلوم ہوا کہ تمام انتظامات مکمل تھے، شہر کی صفائی ستھرائی عمدہ تھی، جگہ جگہ پھول پودے لگائے گئے تھے اور میونسپلٹی والے انہیں پانی دینے میں مصروف تھے۔

صبح کے 9 بجے اس سیاسی دنگل کا بگل بجنا تھا۔ سیاسی جماعتوں، خاص طور پر حکومتی جماعت پاکستان تحریک انصاف اور پاکستان مسلم لیگ (ن)، تجزیہ کاروں اور سیاست میں دلچسپی رکھنے والوں کی نگاہیں اس انتخاب پر مرکوز تھیں۔ میڈیا کے نمائندے تو اپنا پھرپور کردار ادا کر ہی رہے تھے مگر آج ڈسکہ این اے 75 کا ضمنی انتخاب ایک ’ہاٹ کیک‘ تھا۔ جگہ جگہ کھڑی ڈی ایس این جیز، ان سے نکلتی ہوئی تاروں سے جڑے کیمرے اور کیمرے کے سامنے کھڑے رپورٹرز تازہ ترین صورتحال سے آگہی دے رہے تھے۔

گرم موسم اس بات سے خبردار کررہا تھا کہ آج سورج کے تیور بگڑے ہوئے ہیں۔ اس کے باوجود جو قابلِ ذکر منظر دیکھنے کو ملا وہ یہ کہ ووٹرز کی ایک بڑی تعداد پولنگ اسٹیشنوں اور اطراف میں لگے سیاسی جماعتوں کے کیمپوں میں موجود تھی۔ خواتین بھی کسی سے پیچھے نظر نہیں آئیں۔ ان کی ایک بہت بڑی تعداد اپنے ووٹ کا حق استعمال کرنے پہنچی ہوئی تھی، اور سب کو بس 9 بجنے کا انتظار تھا۔ اس سیاسی دنگل کے آغاز میں اب کچھ ہی لمحوں کا فاصلہ حائل تھا۔

سایسی جماعتوں کے کیمپوں پر بھی عوام کی بڑی تعداد نظر آرہی تھی
سایسی جماعتوں کے کیمپوں پر بھی عوام کی بڑی تعداد نظر آرہی تھی

یہ ضمنی انتخاب میڈیا کے  لے بھی ’ہاٹ کیک‘ تھا
یہ ضمنی انتخاب میڈیا کے لے بھی ’ہاٹ کیک‘ تھا

الیکشن رپورٹنگ کا ایک منفرد انداز
الیکشن رپورٹنگ کا ایک منفرد انداز

انتظامیہ کی جانب سے بھی انتظامات مکمل تھے
انتظامیہ کی جانب سے بھی انتظامات مکمل تھے

9 بجتے ہی پولنگ کا آغاز ہوگیا۔ ہم نے بھی تھوڑی دیر بعد کیمرے کے سامنے لائیو کھڑے ہوکر اسٹوڈیو میں بیٹھے اینکرز کے سوالوں کے جواب دینا شروع کردیے۔

اس الیکشن کی ایک خاص بات یہ تھی کہ ووٹ دینے کے لیے مردوں کے ساتھ خواتین ووٹرز کی بھی ایک بڑی تعداد پولنگ اسٹیشنوں کا رخ تو کر رہی تھی لیکن گرمی اور پھر کورونا کی وبا بھی بزرگ شہریوں کو گھروں میں نہ روک سکی۔ میں یہ سوچنے پر مجبور تھا کہ جب اسی شہر میں 19 فروری کو امن و امان خراب ہوا، 2 لوگ جان کی بازی بھی ہار گئے تو ایسی کونسی وجہ ہے کہ کورونا کی شدت اور پھر شدید گرمی میں بھی لوگ ووٹ ڈالنے کے لیے آرہے ہیں۔

میری نظر ایک ضعیف و نحیف بزرگ پر پڑی جو اپنے بیٹے کا ہاتھ تھامے آہستہ آہستہ پولنگ اسٹیشن میں داخل ہورہے تھے۔ میں نے انہیں مخاطب کرکے سلام کیا اور کہا کہ کیا میں آپ سے چند منٹ کی گفتگو کرسکتا ہوں؟ جواب ملا کہ ووٹ ڈال کر آجاؤں پھر بات کرتے ہیں۔ میں پولنگ اسٹیشن کے باہر انتظار کرنے لگ گیا۔ 10 منٹ بعد بزرگ اپنے بیٹے کا ہاتھ تھامے واپس آرہے تھے۔ وہ اور ان کا بیٹا میرے پاس آکر رکے تو میں نے ان کے بیٹے سے ان بزرگ کا نام اور عمر پوچھی۔ ان کا نام حاجی محمد اسحٰق اور عمر 90 سال سے زائد تھی۔ یہ سن کر میری حیرانی اور بھی زیادہ بڑھ گئی۔ حاجی صاحب کے بیٹے سے پوچھا کہ کیا حاجی صاحب نے خود ووٹ ڈالنے کی خواہش کا اظہار کیا؟ جواب ملا کہ یہ حاجی صاحب کی اپنی خواہش تھی کہ کچھ بھی ہوجائے ووٹ ڈالنے ضرور جاؤں گا یہ عوام کے پاس امانت ہے۔ 19 فروری کو بھی ہم ووٹ ڈالنے آئے تھے لیکن کام خراب ہوگیا تھا۔

میں نے حاجی صاحب کو مخاطب کرکے پوچھا کہ کیا آپ کو یقین ہے کہ آپ کی امانت کا درست استعمال بھی ہوگا؟ حاجی صاحب کا جواب تھا ’اللہ بہتر کرے گا‘۔ میرا اگلا سوال تھا کہ حاجی صاحب آپ اپنے ووٹ سے کس طرح کی تبدیلی چاہتے ہیں اور ڈسکہ کے عوام کے لیے کیا چیز تبدیل ہونی چاہیے؟ حاجی صاحب نے کہا کہ ’مہنگائی میں کمی ہونی چاہیے، خوشحالی آنی چاہیے، غریب آدمی کے لیے بہت مشکل وقت ہے۔ گیس، بجلی، ادویات، آٹے اور چینی کی قیمت بہت زیادہ ہے‘۔

لیکن مزے کی بات یہ کہ حاجی صاحب موجودہ حالات کے باوجود پی ٹی آئی سے خوش نظر آئے اور بتایا کہ میں نے پاکستان میں ہونے والے ہر انتخاب میں ووٹ دیا لیکن ملک میں آج تک تبدیلی صرف مہنگائی میں آئی ہے۔

پولنگ اسٹیشنوں پر سیکیورٹی کے سخت انتظامات تھے
پولنگ اسٹیشنوں پر سیکیورٹی کے سخت انتظامات تھے

پولنگ اسٹیشن کا اندرونی منظر
پولنگ اسٹیشن کا اندرونی منظر

میں نے حاجی صاحب کا شکریہ ادا کیا اور پولنگ اسٹیشن سے باہر آنے والے دیگر مرد و خواتین ووٹرز سے انتخابی عمل کے بارے ان کی رائے جاننے کی کوشش کرتا رہا۔ ووٹ ڈالنے والے ایک اور بزرگ شہری سے پوچھا کہ آج آپ نے جن حالات میں اپنا ووٹ ڈالا ہے اس کے نتیجے میں آنے والی تبدیلی سے آپ خوش ہوں گے؟ جواب میں کہنے لگے کہ ’تبدیلی سے خوش ہوں گے لیکن تبدیلی سرکار سے خوش نہیں‘۔ ووٹرز کی رائے سے مجھے کچھ حد تک اندازہ ہو رہا تھا کہ جھکاؤ کس طرف ہے۔

ووٹرز کی آمد و رفت کے ساتھ ساتھ جا بجا ماسک، سیاسی جماعتوں کے بیج، اسٹیکرز اور دال سیو بیچنے والوں نے بھی سڑک پر اپنی دکانیں سجائی ہوئی تھیں۔ سوچا کیوں نہ بیج اور اسٹیکر بیچنے والے سے پوچھوں کہ بھائی آج پی ٹی آئی اور مسلم لیگ (ن) میں سے کس جماعت کے لیڈر کا تصویری بیج اور اسٹیکر بک رہا ہے؟ تنویر حسین نامی یہ شخص گجرانوالہ سے ڈسکہ آیا تھا تاکہ اسٹیکر اور بیج بیچ کر دو پیسے کمالے۔ میرے پوچھنے پر بتایا کہ آج زیادہ تعداد مسلم لیگ (ن) کے اسٹیکر اور بیج خریدنے والوں کی ہے اور میاں نواز شریف کی تصویر زیادہ بک رہی ہے۔

سورج اپنی پوری آب و تاب سے چمک رہا تھا۔ ہمارے سیالکوٹ کے دوست اور نمائندے محمد عثمان اقبال نے بتایا کہ ضلعی انتظامیہ نے ڈسکہ سول کلب میں صحافیوں کے لیے ایک میڈیا کوآرڈینیشن سینٹر قائم کیا ہے جہاں آرام اور کھانے پینے کا بھی انتظام کر رکھا ہے تو کیوں نہ تھوڑی دیر سستا لیا جائے۔

میں نے ان کی اس رائے سے اتفاق کیا اور پھر وہاں کی طرف چل پڑے۔ ہم جب وہاں پہنچے تو دیکھا کہ ٹی وی اسکرینز لگی ہوئی تھیں اور تمام نیوز چینلز اس ضمنی انتخاب کی کوریج کر رہے تھی۔ ساتھ ہی ایک بڑی اسکرین بھی نصب کی گئی تھی جس کے بارے میں ڈائریکٹر انفارمیشن محکمہ اطلاعات پنجاب حامد جاوید اعوان صاحب نے بریف کیا کہ شام 5 بجے کے بعد جیسے جیسے ابتدائی نتائج آتے جائیں گے اسکرین پر اپ ڈیٹ ملتی رہے گی۔ حامد صاحب نے بتایا کہ حال ہی میں ان کا تبادلہ راولپنڈی ڈویژن سے گجرانوالہ ڈویژن ہوا ہے۔ اس دوران دیگر صحافی دوستوں کے ساتھ بھی ملاقات اور گپ شپ ہوتی رہی اور ساتھ ساتھ کام بھی چلتا رہا۔

ماسک پہنے گجرانوالہ سے آئے تنویر حسین اپنے ساتھی کے ہمراہ اسٹیکر، بیج اور ماسک بیچتے ہوئے
ماسک پہنے گجرانوالہ سے آئے تنویر حسین اپنے ساتھی کے ہمراہ اسٹیکر، بیج اور ماسک بیچتے ہوئے

کامونکی کا محمد عباس بیٹے کے ہمراہ سخت گرمی میں پولنگ اسٹیشن کے باہر دال سیو بیچ رہا ہے
کامونکی کا محمد عباس بیٹے کے ہمراہ سخت گرمی میں پولنگ اسٹیشن کے باہر دال سیو بیچ رہا ہے

میڈیا کو آرڈینیشن سینٹر
میڈیا کو آرڈینیشن سینٹر

شام کے 5 بج چکے تھے اور پولنگ کا وقت ختم ہوگیا تھا۔ اس بار ناصرف امن و امن کی صورتحال بہت اچھی رہی بلکہ پولنگ کا عمل بھی سبک رفتاری کے ساتھ بغیر کسی رکاوٹ کے جاری رہا۔ مختلف پولنگ اسٹیشنوں پر متعدد ووٹرز سے بات چیت کی لیکن کسی ایک نے بھی پولنگ کے عمل میں شکایت نہیں کی۔ تمام تر انتظامات قابلِ ستائش تھے مگر میں ایک بات سوچ رہا تھا کہ الیکشن کمیشن اور وہ تمام متعلقہ ادارے جو انتخابی عمل کو امن و امان کے ساتھ کروانے کے ذمہ دار ہیں، اگر 19 فروری کو بھی اسی طرح کی کارکردگی کا مظاہرہ کرتے تو 2 افراد جان سے نہ جاتے، 20 پریزائیڈنگ افسران دھند میں گُم نہ ہوتے، ووٹرز جو ووٹ کو امانت سمجھتے ہیں ان کی امانت کے ساتھ خیانت نہ ہوتی اور 10 اپریل کو ڈسکہ میں جس ضمنی انتخاب کی مشق دہرائی گئی اس پر عوام کے ٹیکس کی کثیر رقم نہ لگتی۔

خیر، رات 11 بجے تک ہم آر او آفس کے باہر موجود رہے۔ مختلف پولنگ اسٹیشنوں سے نتائج آنے کا سلسلہ تیزی سے جاری تھا۔ ابتدائی نتائج ہی اس بات کی غمازی کر رہے تھے کہ مسلم لیگ (ن) کی نوشین افتخار کو پی ٹی آئی کے علی اسجد ملہی پر واضح برتری حاصل ہو رہی ہے جو بعدازاں ان کی جیت کی صورت میں سامنے آگئی۔

خواتین پولنگ ایجنٹس فارم 45 دکھاتے ہوئے
خواتین پولنگ ایجنٹس فارم 45 دکھاتے ہوئے

فارم 45
فارم 45

ہم نے واپسی کا ارادہ کیا اور بہت سارے سوالوں کے ساتھ دوبارہ جی ٹی روڈ پر رواں دواں ہوگئے کہ اگر ڈسکہ کا ضمنی انتخاب تمام تر انتظامات اور بغیر کسی بدنظمی کے ساتھ ایک ماڈل انتخاب کے طور پر یاد رکھا جاتا ہے تو کیا اب مستقبل میں ضمنی یا عام انتخابات کا انعقاد اسی ماڈل پر کروایا جائے گا؟ کیا اب بندوق، گولی، لاٹھی، ڈنڈے اور دھاندلی سے پاک انتخابات کا آغاز ہوچکا ہے؟

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں