کورم پورا نہ ہونے کے باعث قومی اسمبلی کے اجلاس 24 مرتبہ ملتوی ہوئے، پلڈاٹ

اپ ڈیٹ 17 اگست 2021
ارکان قومی اسمبلی کی غیر حاضری کے نتیجے میں تین سال میں متعدد اجلاس ملتوی ہوئے — فائل فوٹو: اے پی پی
ارکان قومی اسمبلی کی غیر حاضری کے نتیجے میں تین سال میں متعدد اجلاس ملتوی ہوئے — فائل فوٹو: اے پی پی

اگرچہ قومی اسمبلی نے حال ہی میں مکمل ہونے والے پارلیمانی سال کے دوران قانون سازی کے حوالے سے بہت اچھی کارکردگی دکھائی لیکن وزیر اعظم عمران خان سمیت اراکین کی حاضری کے حوالے سے کوئی بہتری نہ آسکی اور 79 میں سے 24 اجلاس کورم پورا نہ ہونے کے باعث ملتوی ہوئے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف لیجسلیٹو ڈیولپمنٹ اینڈ ٹرانسپیرنسی (پلڈاٹ) کی '15ویں قومی اسمبلی کے تین سال: شہریوں کا نقطہ نظر' کے مطابق وزیر اعظم، قومی اسمبلی کے 79 اجلاس میں سے صرف 7 میں شریک ہوئے جبکہ قائد حزب اختلاف شہباز شریف نے 10 اجلاس میں شرکت کی۔

یہ بھی پڑھیں: قومی اسمبلی میں شہباز شریف کی تقریر کے دوران شدید ہنگامہ آرائی، شور شرابا

رپورٹ میں کہا گیا کہ تین سال کے دوران وزرا اور پارلیمانی سیکریٹریز کی غیر حاضری پر نہ صرف اپوزیشن نے مسلسل تنقید کی بلکہ یہ متعدد مرتبہ اجلاسوں کی صدارت کرنے والوں کے لیے ناراضی کا سبب بنا۔

پلڈاٹ نے کہا کہ تین سال کے عرصے میں پریزائیڈینگ افسران نے متعدد بار متعلقہ وزرا اور پارلیمانی سیکریٹریز کی غیر حاضری پر تنقید کی، ان پر کم از کم 4 مواقع پر تنقید کی گئی۔

ارکانِ قومی اسمبلی کی غیر حاضری کے نتیجے میں تین سال میں متعدد اجلاس ملتوی ہوئے، اعداد و شمار کے مطابق 49 اجلاس میں کورم پورا نہ ہونے کی نشاندہی کی گئی جبکہ 24 اجلاس (31 فیصد) کورم پورا نہ ہونے کی وجہ سے ملتوی کر دیے گئے۔

کورم برقرار رکھنے کے لیے قومی اسمبلی کے 342 اراکین میں سے ایک چوتھائی یعنی 86 اراکین کی حاضری لازمی ہوتی ہے۔

مزید پڑھیں: قومی اسمبلی اجلاس میں ’خلل‘ ڈالنے پر تحریک انصاف کے رکن کو خط جاری

رپورٹ میں کہا گیا کہ 'پاکستان میں سیاست ابھی سیاسی عناد سے چھٹکارا پانے کے لیے مکمل طور پر تیار نہیں ہے، قومی اسمبلی کو غیر معمولی طور پر نسبتاً سیاسی زہر کا سامنا رہا'۔

14ویں قومی اسمبلی کو اس وقت کی اپوزیشن جماعت پی ٹی آئی اور اس کی اتحادی پی اے ٹی کے طویل دھرنے اور اس کی حدود میں حملے کا سامنا کرنا پڑا تھا۔

بات سیاسی دھچکے کی ہو تو تیسرے سال ایسا کچھ نہیں ہوا، سابق وزرائے اعظم کو 'غدار' کہنے سے لے کر سیاسی مخالفین کے بچوں کو سیاست میں گھسیٹنے تک 15ویں قومی اسمبلی نے یہ سب دیکھا اور سنا ہے جس کے نتیجے میں اسمبلی کی کارروائیوں کے دوران سنگین رکاوٹوں کا سامنا رہا اور متعدد مرتبہ ہنگامہ آرائی دیکھی گئی۔

یہ بھی پڑھیں: قومی اسمبلی میں 3 آرڈیننس پیش کرنے کے خلاف اپوزیشن کا واک آؤٹ

رپورٹ کے مطابق 12 اگست کو اختتام پزیر ہونے والے قومی اسمبلی کے تیسرے سال میں قانون سازی کے لیے سرگرمیاں تیز ہوئیں اور اس نے 60 قانون منظور کیے جو گزشتہ سال کے مقابلے میں قانون سازی کی شرح میں 100 فیصد اضافہ ہے، قومی اسمبلی کے دوسرے سال میں 30 بلز منظور کیے گیے تھے۔

مجموعی طور پر موجودہ قومی اسمبلی نے تین سال کے دوران 100 بلز منظور کیے جن کی پچھلی قومی اسمبلی کے تین سالوں میں مجموعی تعداد 69 تھی۔

رپورٹ میں کہا گیا کہ 15ویں قومی اسمبلی کے تین سالوں میں قانون سازی کے عمل میں تیزی آئی ہے، لہٰذا سابقہ قومی اسمبلی کے مقابلے میں تین سالوں میں قانون سازی میں 45 فیصد اضافہ دیکھا گیا۔

ایک اور مثبت پیش رفت یہ ہے کہ تیسرے سال کے دوران حکومت کی طرف سے اسمبلی میں پیش کیے گئے آرڈیننسز کی تعداد میں کمی آئی، دوسرے سال کے 31 آرڈیننسز کے مقابلے میں تیسرے سال ایوان میں 20 آرڈیننسز پیش کیے گئے جو تقریباً 35 فیصد کی کمی ہے۔

گزشتہ حکومت نے 14ویں قومی اسمبلی کے پہلے تین سالوں میں 29 آرڈیننسز پیش کیے تھے جبکہ موجودہ حکومت نے 15ویں قومی اسمبلی میں تین سالوں میں 58 آرڈیننسز پیش کیے، جو 100 فیصد اضافہ ظاہر کرتے ہیں۔

مزید پڑھیں: شہباز شریف کی تقریر کے دوران قومی اسمبلی میں تیسرے روز بھی بدنظمی، اجلاس ملتوی

تین سالوں کے دوران 79 ایام میں قومی اسمبلی کے اجلاس ہوئے جس میں دوسرے سال کے 89 اجلاس کے مقابلے میں کمی رونما ہوئی ہے، قومی اسمبلی کے پہلے تین سالوں میں اوسطاً 88 کاروباری ایام میں اجلاس ہوئے۔

اگر اس کا سابق حکومت کے تین سالوں سے موازنہ کیا جائے تو پاکستان مسلم لیگ (ن) کی حکومت کے دوران 99 کاروباری ایام میں قومی اسمبلی کے اجلاس ہوئے تھے۔

اس لحاظ سے 15ویں قومی اسمبلی کی کارکردگی میں 11 فیصد کمی آئی ہے۔

وزیر اعظم عمران خان نے تیسرے سال میں صرف 7 اجلاس میں شرکت کی جو دوسرے سال کے تقریباً برابر ہے، وزیر اعظم نے مجموعی طور پر تین سالوں کے دوران صرف 12 فیصد اجلاس میں شرکت کی جبکہ سابق وزیر اعظم نواز شریف حکومت کے ابتدائی تین سالوں میں 16 فیصد اجلاس میں شریک ہوئے تھے۔

اسی طرح قائد حزب اختلاف شہباز شریف نے تیسرے سال میں 13 فیصد اجلاس میں شرکت کی جو کہ دوسرے سال 4 فیصد سے بہتر ہے، اگر سابق قائد حزب اختلاف خورشید شاہ سے ان کا موازنہ کیا جائے تو وہ 14ویں اسمبلی کے پہلے سال 75 فیصد اجلاس میں شریک ہوئے تھے جبکہ شہباز شریف کی اوسط شرکت 24 فیصد رہی۔

تبصرے (0) بند ہیں