جامع طالبان حکومت کا قیام، ملاعبدالغنی مذاکرات کیلئے کابل پہنچ گئے

اپ ڈیٹ 21 اگست 2021
عبدالغنی برادر ایک جامع حکومت کے قیام کے لیے طالبان رہنماؤں اور سیاست دانوں سے ملاقات کریں گے— فائل فوٹو: اے ایف پی
عبدالغنی برادر ایک جامع حکومت کے قیام کے لیے طالبان رہنماؤں اور سیاست دانوں سے ملاقات کریں گے— فائل فوٹو: اے ایف پی

طالبان کے شریک بانی ملا عبدالغنی برادر افغانستان میں ایک نئی جامع حکومت کے قیام پر مذاکرات کے لیے ہفتے کو کابل پہنچ گئے ہیں۔

خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کے مطابق حالیہ دنوں میں دارالحکومت میں نظر آنے والے دیگر سینئر طالبان رہنماؤں میں خلیل حقانی بھی شامل ہیں جو امریکا کے انتہائی مطلوب دہشت گردوں میں سے ایک ہیں اور جن پر امریکا نے 50لاکھ ڈالر انعام کا اعلان کر رکھا ہے۔

مزید پڑھیں: طالبان کا احتساب کا عزم، افغانستان میں انتقامی کارروائی کی رپورٹس کی تحقیقات کا اعلان

طالبان کی حمایت یافتہ سوشل میڈیا پوسٹ میں خلیل حقانی کی گلبدین حکمت یار سے ملاقات کا انکشاف کیا گیا جو 1990 کی دہائی کے اوائل میں ہونے والی خانہ جنگی میں حفانی گروپ کے حریف تھے لیکن آج بھی افغانستان کی سیاست میں اثرورسوخ رکھتے ہیں۔

ایک سینئر طالبان عہدیدار نے اے ایف پی کو بتایا کہ عبدالغنی برادر ایک جامع حکومت کے قیام کے لیے طالبان رہنماؤں اور سیاست دانوں سے ملاقات کریں گے۔

عبدالغنی برادر گزشتہ منگل کو قطر سے افغانستان پہنچے تھے اور انہوں نے ملک میں آنے کے لیے دوسرے بڑے شہر اور طالبان کی جائے پیدائش قندھار کا انتخاب کیا تھا۔

ان کی وطن واپسی کے چند گھنٹوں کے بعد ہی طالبان نے اعلان کیا تھا کہ اس بار طالبان کا طرز حکمرانی مختلف ہو گا۔

یہ بھی پڑھیں: طالبان کے قبضے کے بعد افغانستان کی جی ڈی پی 20 فیصد گرنے کا امکان

طالبان نے کہا ہے کہ وہ چاہتے ہیں کہ ان کی یہ حکومت جامع ہو لیکن ابھی تک یہ تفصیلات نہیں بتائیں کہ ان کی حکومت میں کون کون شامل ہو گا۔

2010 میں پاکستان میں گرفتار کیے گئے عبدالغنی برادر 2018 تک حراست میں رہے جس کے بعد انہیں امریکا کے اصرار پر رہا کر کے قطر منتقل کردیا گیا تھا۔

انہیں دوحہ میں طالبان کے سیاسی دفتر کا سربراہ مقرر کیا گیا جہاں انہوں نے معاہدے پر دستخط کی نگرانی کی جس کی وجہ سے امریکی افواج کے انخلا اور ان کی 20 سالہ مہم کو ختم کرنے کا معاہدہ ہوا۔

طالبان نے دو ہفتوں کے اندر اندر حیران کن رفتار سے پیش قدمی کرتے ہوئے پورے ملک کو زیر کردیا جس کے ساتھ ہی افغان حکومت کے ساتھ مذاکرات کی امیدیں بھی ختم ہو گئیں۔

مزید پڑھیں: افغانستان میں 'سیاسی تصفیے' کیلئے امریکا کا پاکستان، چین پر زور

جمعہ کے روز طالبان کے نائب رہنما سراج الدین حقانی کے چچا خلیل حقانی کو کابل کی مسجد میں نماز کی امامت کرتے ہوئے دیکھا گیا تھا۔

حقانی نیٹ ورک کے ایک اور اہم رہنما انس حقانی بھی دارالحکومت کابل میں ہیں اور انہوں نے سابقہ انتطامیہ کے لیے امن مذاکرات کی قیادت کرنے والے سابق صدر حامد کرزئی اور عبداللہ عبداللہ سے ملاقات کی۔

ادھر رپورٹس کے مطابق عبدالغنی برادر، سراج الدین حقانی سمیت امریکا کی دہشتگردوں کی فہرست میں موجود 133 طالبان رہنماؤں پر عائد پابندی ختم کیے جانے کا امکان ہے۔

ادھر پاکستان، چین اور روس پہلے ہی عندیہ دے چکے ہیں کہ وہ طالبان حکومت کی مخالفت نہیں کریں گے اور وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کا اتوار کو دورہ کابل متوقع ہے تاکہ افغانستان میں جامع طالبان حکومت کے قیام کے لیے گفتگو کی جا سکے۔

یہ بھی پڑھیں: احمد شاہ مسعود کے بیٹے کا طالبان کے خلاف مزاحمت کا اعلان

دوسری جانب سابق صدر اشرف غنی کے بھائی اور ایک دور میں جمہوریت کی وکالت کرنے والے حشمت غنی احمدزئی نے بھی طالبان کو اپنی وفاداری کا یقین دلایا ہے۔

طالبان کے ساتھ مذاکرات میں شریک عبداللہ عبداللہ نے ہفتے کو ٹوئٹ کی کہ انہوں نے حامد کرزئی کے ہمراہ کابل میں طالبان کے قائم مقام گورنر سے ملاقات کی جنہوں نے یقین دہانی کرائی کہ وہ شہر کے عوام کی سیکیورٹی کے لیے جو بھی ہو سکا وہ کریں گے۔

تبصرے (0) بند ہیں