طالبان کا احتساب کا عزم، افغانستان میں انتقامی کارروائی کی رپورٹس کی تحقیقات کا اعلان

اپ ڈیٹ 21 اگست 2021
ایک ہفتے قبل اتوار کے روز طالبان نے کابل پر بغیر گولی چلائے قبضہ کرلیا تھا —  فائل فوٹو: رائٹرز
ایک ہفتے قبل اتوار کے روز طالبان نے کابل پر بغیر گولی چلائے قبضہ کرلیا تھا — فائل فوٹو: رائٹرز

طالبان کے ایک عہدیدار نے بتایا ہے کہ طالبان اپنے اعمال کے لیے جوابدہ ہوں گے اور ارکان کی جانب سے کیے جانے والے انتقام اور مظالم کی رپورٹس کی تحقیقات کریں گے۔

غیر ملکی خبر رساں ادارے 'رائٹرز' کی رپورٹ کے مطابق نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر طالبان عہدیدار نے کہا کہ تنظیم نے آئندہ چند ہفتوں میں افغانستان پر حکومت کرنے کے لیے ایک نیا ماڈل تیار کرنے کا ارادہ کیا ہے۔

واضح رہے کہ ایک ہفتے قبل اتوار کے روز طالبان نے کابل پر بغیر گولی چلائے قبضہ کرلیا تھا۔

اس وقت سے افغان اور بین الاقوامی امدادی گروپس نے احتجاج کے خلاف سخت جوابی کارروائی رپورٹ کی ہے اور کہا ہے کہ جو پہلے حکومتی عہدوں پر تھے، طالبان پر تنقید کرتے تھے یا امریکیوں کے ساتھ کام کرتے تھے انہیں گرفتار کیا جارہا ہے۔

مزید پڑھیں: طالبان کے قبضے کے بعد افغانستان کی جی ڈی پی 20 فیصد گرنے کا امکان

عہدیدار نے کہا کہ 'ہم نے عام شہریوں کے خلاف مظالم اور جرائم کے چند واقعات سنے ہیں، اگر طالبان کے ارکان امن و امان کے یہ مسائل پیدا کر رہے ہیں تو ان کی تحقیقات کی جائیں گی'۔

انہوں نے مزید کہا کہ 'ہم گھبراہٹ، تناؤ اور اضطراب کو سمجھ سکتے ہیں، لوگ سمجھتے ہیں کہ ہم جوابدہ نہیں ہوں گے تاہم ایسا نہیں ہوگا'۔

سابق عہدیداروں نے حالیہ دنوں میں بندوق بردار افراد کے گھروں میں گھس آنے پر طالبان سے چھپنے کی افسوسناک کہانیاں سنائی ہیں۔

عہدیدار نے کہا کہ ملک پر حکومت کرنے کا نیا فریم ورک مغربی تعریف کے مطابق جمہوریت نہیں ہوگا، تاہم 'یہ ہر ایک کے حقوق کا تحفظ کرے گا'۔

انہوں نے کہا کہ 'طالبان میں قانونی، مذہبی اور خارجہ پالیسی کے ماہرین کا مقصد اگلے چند ہفتوں میں نیا گورننگ فریم ورک پیش کرنا ہے'۔

عہدیدار نے مقامی میڈیا رپورٹس پر تبصرہ کرنے سے انکار کر دیا کہ طالبان کے سیاسی دفتر کے سربراہ ملا برادر کابل پہنچ چکے ہیں۔

ایئرپورٹس پر افراتفری

انہوں نے کہا کہ کابل ایئرپورٹس پر افراتفری، ہزاروں لوگوں کے ملک سے بھاگنے کے لیے بے چینی طالبان کی ذمہ داری نہیں تھی، مغرب کے پاس انخلا کا بہتر منصوبہ ہو سکتا تھا'۔

یہ بھی پڑھیں: افغانستان میں 'سیاسی تصفیے' کیلئے امریکا کا پاکستان، چین پر زور

ایئرپورٹس کے ارد گرد بندوق سے لیس طالبان کے ارکان نے سفری دستاویزات نہ رکھنے والوں سے گھر جانے کی اپیل کی ہے۔

نارتھ اٹلانٹک ٹریٹی آرگنائزیشن (نیٹو) اور طالبان حکام نے بتایا کہ اتوار کے بعد سے کم از کم 12 افراد ایئرپورٹس کے اندر اور اس کے ارد گرد ہلاک ہو چکے ہیں۔

نیٹو کے ایک عہدیدار نے رائٹرز کو بتایا کہ طالبان باغیوں کے دارالحکومت میں داخل ہونے کے بعد سے تقریباً 12 ہزار غیر ملکی اور سفارت خانوں اور بین الاقوامی امدادی گروپس کے لیے کام کرنے والے افغانیوں کو کابل ایئرپورٹ سے نکال لیا گیا ہے۔

نام ظاہر نہ کرنے والے عہدیدار نے کہا کہ 'انخلا کا عمل سست ہے کیونکہ یہ خطرناک ہے کیونکہ ہم ایئرپورٹ کے باہر طالبان ارکان یا عام شہریوں کے ساتھ کسی قسم کی جھڑپ نہیں چاہتے'۔

انہوں نے کہا کہ 'ہم انخلا کے منصوبے کے حوالے سے الزام تراشی کا کھیل شروع نہیں کرنا چاہتے'۔

جہاں مغربی ممالک افراتفری اور طالبان کے تشدد کی رپورٹس کے درمیان انخلا کی رفتار کو تیز کرنے کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں وہیں امریکی صدر جو بائیڈن نے امریکی فوجیوں کے انخلا کی منصوبہ بندی اور طالبان کے فوری قبضے کے بارے میں تنقید کا سامنا کیا۔

وائٹ ہاؤس سے تقریر کرنے کے بعد جو بائیڈن نے صحافیوں کو بتایا کہ 'میں نے اپنے اتحادیوں سے ہماری ساکھ پر کوئی سوال اٹھاتے نہیں دیکھا، حقیقت میں، جو ہم نے کہا ہم اس پر سب عمل کر رہے ہیں'۔

انہوں نے اصرار کیا کہ ہر امریکی جو چاہتا ہے اسے نکال لیا جائے گا۔

نیٹو کے سیکریٹری جنرل جینز اسٹولٹن برگ نے کابل ایئرپورٹ کے باہر کی صورت حال کو 'انتہائی خطرناک اور مشکل' قرار دیا کیونکہ کئی رکن ممالک نے 31 اگست کی امریکی ڈیڈ لائن کے بعد بھی انخلا پر زور دیا۔

مزید پڑھیں: کابل سے انخلا سب سے مشکل تھا، جو بائیڈن

جو بائیڈن نے کہا کہ وہ افغانستان میں حتمی نتائج کی پیش گوئی نہیں کر سکتے جہاں امریکا اور اتحادیوں نے 20 سالہ جنگ لڑی ہے۔

لیکن انہوں نے دیگر ممالک کے ساتھ مل کر کام کرنے کے عزم کا اظہار کیا تاکہ وہ اپنے انسانی حقوق کے ریکارڈ کی بنیاد پر طالبان کے ساتھ کسی بھی قسم کے تعاون، یا تسلیم کے لیے 'سخت شرائط' قائم کریں۔

انہوں نے کہا کہ 'وہ کچھ قانونی حیثیت حاصل کرنے کے خواہاں ہیں، انہیں یہ معلوم کرنا ہوگا کہ وہ اس ملک کو کیسے برقرار رکھیں گے'۔

ان کا کہنا تھا کہ 'اور کچھ سخت حالات ہونے جارہے ہیں ، مضبوط شرائط جو ہم لاگو کرنے جارہے ہیں اس پر انحصار کرے گا کہ وہ خواتین اور لڑکیوں کے ساتھ کتنا اچھا سلوک کرتے ہیں، وہ اپنے شہریوں کے ساتھ کیسا سلوک کرتے ہیں'۔

تبصرے (0) بند ہیں