برطانوی فوج نے ایندھن کا بحران ختم کرنے کیلئے ترسیل شروع کردی

05 اکتوبر 2021
برطانیہ کی سڑکوں پر پندرہ روز سے زائد ایام تک پیٹرول پمپوں کے گرد گاڑیوں کی لمبی قطاریں لگی رہیں — فوٹو: اے ایف بی
برطانیہ کی سڑکوں پر پندرہ روز سے زائد ایام تک پیٹرول پمپوں کے گرد گاڑیوں کی لمبی قطاریں لگی رہیں — فوٹو: اے ایف بی

ٹینکرز ڈرائیوز کی کمی کے بعد دو ہفتے سے ملک میں افراتفری کے باعث برطانوی فوج نے پیٹرول پمپس پر ایندھن کی ترسیل شروع کردی۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق فوج کو گزشتہ ہفتے تیار رہنے کی ہدایت کے بعد فوجی اہلکاروں نے شمال لندن سے 20 میل (32 کلومیٹر) دور واقع ہیمل ہیپ اسٹیڈ کے بنس فیلڈ آئل ڈپو سے ایندھن لے کر ترسیل کی۔

لندن اور انگلینڈ کے جنوب مشرق میں ایندھن کی قلت کو دور کرنے کے لیے 200 فوجی اہلکار، جن میں سے نصف ڈرائیورز ہیں، آپریشن 'ایسکالین' میں حصہ لے رہے ہیں، یہ علاقے پمپس میں پیٹرول ختم ہونے سے شدید متاثر ہیں۔

برطانوی وزیر اعظم بورس جانسن کے ترجمان نے میڈیا کو بتایا کہ 31 روز کے لیے فوج کی تعیناتی کی درخواست کی گئی ہے لیکن اس معاملے پر 'صنعت سے گفتگو' کے بعد حتمی فیصلہ کیا جائے گا۔

یہ بھی پڑھیں: برطانیہ میں پیٹرول کا بحران: طبی عملے، اساتذہ، پولیس کا ترجیحی بنیادوں پر فراہمی کا مطالبہ

انہوں نے مزید کہا کہ ہفتے کے اختتام پر ہم نے دیکھا کہ ایندھن کے ذخیرے میں مسلسل بہتری آئی ہے اور مزید ایندھن کی ترسیل جاری ہے۔

انہوں نے تنبیہہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ کہنا مشکل ہے کہ حالات واپس کب معمول پر آئیں گے۔

برطانیہ کے کُل 8 ہزار 380 آزاد پیٹرول پمپس میں سے 65 فیصد کی نمائندہ پیٹرول ریٹیلرز ایسوسی ایشن (پی آر اے) نے فوج کی مداخلت کا خیر مقدم کیا تاہم اس نے خبردار کیا کہ فوجیوں کی مداخلت کے باوجود بھی پیٹرول کی ترسیل پر محدود اثرات کا امکان ہے۔

مزید پڑھیں: پیٹرول بحران: 'ذمہ داران کو معاف نہیں کیا جائے گا'

چیئرمین پی آر اے برائن میڈرسن کا کہنا تھا کہ لندن اور جنوب مشرقی انگلینڈ کے ہر پانچ میں سے ایک اسٹیشن میں تاحال پیٹرول موجود نہیں ہے، لیکن ملک کے دیگر حصوں میں ظاہری طور پر یہ بحران ختم ہوچکا ہے۔

برطانیہ کی سڑکوں پر پندرہ روز سے زائد ایام تک پیٹرول پمپوں کے گرد گاڑیوں کی لمبی قطاریں لگی رہیں۔

اس دوران شہریوں کی پریشانی غصے میں تبدیل ہوگئی اور بوتلوں میں پیٹرول بھروانے والوں اور گاڑیوں میں پیٹرول ڈلوانے والوں کے درمیان پُرتشدد واقعات سامنے آئے۔

ناقدین نے افراتفری کا ذمہ دار برطانیہ کے یورپی یونین سے اخراج، کورونا وائرس اور ملک چھوڑنے والے ہزاروں غیر ملکی ڈرائیوروں کے متبادل سے متعلق حکومتی منصوبہ بندی کے فقدان کو ٹھہرایا ہے۔

برطانوی صدر بورس جانسن کا کہنا تھا کہ 'عالمی معیشت خاص طور پر برطانوی معیشت میں فعال سپلائی چین کے مسائل کورونا وائرس کے بعد ختم ہوچکے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: پیٹرول بحران: وزیر اعظم کاتحقیقات کا حکم

انہوں نے کہا کہ پولینڈ، امریکا اور چین بھی ڈرائیوروں کے بحران سے دو چار ہیں۔

حکومت نے بریگزٹ کے بعد سخت ترین بنائی گئی سخت امیگریشن پالیسی سے یوٹرن لیتے ہوئے اسے نرم کردیا ہے جس کے بعد 5 ہزار ٹرک ڈرائیورز اور 5 ہزار پولٹری ملازمین کو ویزا جاری کیا گیا ہے تاکہ عملے کی کمی کو پُر کیا جاسکے۔

تاہم بورس جانسن نے مزید نرمی کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ وہ تنخواہیں کم کرنے والی بڑے پیمانے پر امیگریشن کے بجائے 'زیادہ اجرت اور زیادہ صلاحیت کی حامل معیشت' دیکھنا چاہتے ہیں۔

انہوں نے نقل و حمل کی صنعت سے مطالبہ کیا کہ وہ اس شعبے میں مزید پُرکشش نوکریاں فراہم کرنے کے لیے ڈرائیورز کی تنخواہوں میں اضافہ کریں۔

تبصرے (0) بند ہیں